نعت

نقشِ پائے رسولؐ آنکھوں میں
پھُول سینے میں ، پھُول آنکھوں میں

جیسے خوشبو کلی کے تُکمے میں
یوں ہے نامِ رسولؐ آنکھوں میں

اُن کی اُلفت کا داغ سینے میں
باغِ عالم کے پھُول آنکھوں میں

روئیں جی بھر کے ، تھام لیں دامن
اُگ رہی ہے ببول آنکھوں میں

عمر بڑھ جائے گی اسیروں کی
شوق کھینچے گا طُول آنکھوں میں

طاقِ دل میں چراغِ حسرتِ دید
مہ و انجم کی دھول آنکھوں میں

دِل میں اِک شاخِ غم کہ سبز بہت
اور لالہ کے پھول آنکھوں میں

آسماں پر دماغ مصحفؔ کا
اُن کے قدموں کی دھُول آنکھوں میں
***

گھاس پہ پاؤں رکھنا

کتنا ا چھّا لگتا ہے
گھاس پہ پاؤں رکھنا
بھورے بادل
ہلکی بارش
اُڑتے اُڑتے ، چڑیوں کا اِک شاخ پہ رُک جانا
کتنا اچھٓا لگتا ہے

اور اچانک
میرے اندر
اِک طوفانی بارش
تیز ہواؤں کے جھکّڑ چلتے ہیں
بجلی، ٹیلیفون کے کھمبے
اُونچے پیڑ اُکھڑتے ہیں
جب یہ آندھی رُکتی ہے
اور یہ کالے بادل میرے سینے سے ہٹتے ہیں
میں پھر
پاس کے ریستوراں میں بیٹھ کے چائے پیتا ہوں
پھر اُڑتی چڑیوں کو گنتا ہوں
گھاس پہ پاؤں رکھتا ہوں

میں پھر ہنسنے لگتا ہوں...!!

****

درد کا نام پتہ مت پوچھو

درد کا نام پتہ مت پوچھو
درد اِک خیمۂ افلاک
اس اقلیم پہ ہے سایہ کناں
(تم اسے قطبِ شمالی کہہ لو)
تم جدھر آنکھ اُٹھا کر دیکھو
برف ہی برف ہے
اور رات ہی رات
ہم وہ ’موجود‘ کہ جن میں شاید
زندگی بننے کے آثار ابھی باقی تھے
حشرات ۔ ایسے کہ جن کو شاید
روشنی اور حرارت کی ضرورت تھی ابھی
اس اندھیرے میں کہو برف پہ رینگیں کیسے
کوئی بتلاؤ کہ اِس رات کے آزار سے نکلیں کیسے
رات ایسی کہ جو ڈھلتی ہی نہیں
برف ایسی کہ پگھلتی ہی نہیں!!

***

کچھ بات نہیں کرتے ہم سے

کچھ کھوئے کھوئے رہتے ہو
کچھ بات نہیں کرتے ہم سے
کوئی اپنا رُوٹھ گیا جیسے
کوئی ساتھی جیسے چھوٹ گیا
اِک خواب تھا جو پَو پھٹتے ہی
بالیں سے گرا
اور چَھن سے جیسے ٹوٹ گیا
اب اپنے لہو کی گردش میں
اُس خواب کی چیخیں سنتے ہو
کتنی شامیں بیتیں
تم آج بھی اپنی پلکوں سے
اُس خواب کی کرچیں چُنتے ہو
اب تم کو کیسے سمجھائیں
وہ رات گئی۔ وہ بات گئی
دِن نکلا ہے۔ تمُ سے ملنے
کتنی خوشیاں ، غم آئے ہیں
دیکھو تو سہی۔ ہم آئے ہیں
کچھ بات نہیں کرتے ہم سے!!

***

نمامی

ہاتھ میں ’’ہندو ‘۱ ‘ لب پر چائے کا پہلا بوسہ
صابن کی دیوار پہ میری آدھی مونچھیں
آدھا چہرہ۔
صبح کی سیر کو جاتے۔
شام کو دفتر سے گھر آتے۔
مجھ سے لمبا میرا سایہ


رات جب آئی
اِک مندر کی روشنیوں میں
کچھ لوگوں نے گنگا جَل سے اشنان کیا
میں نے اپنے رب کو
سجدہ کرنے سے پہلے
چاروں کھونٹ اذاں دی
پھر اپنے بستر پر لیٹا
صدیوں کا جاگا تھا!!

****

۱ ایک انگریزی روزنامہ
***

غزل

سرسبز چمن میرا ، اے بادِ صبا رکھنا
ہر پھول کھِلا رکھنا ، ہر پات ہَرا رکھنا

اِس نیند کی وادی سے میں تو نہ کبھی لوٹوں
شانے پہ مِرے بکھری یہ زلفِ دوتا رکھنا

یہ کب سے نہیں روئیں ، یہ کب سے نہیں سوئیں
ان جاگتی آنکھوں پر تم ہاتھ ذرا رکھنا

یہ نقدِ دِل و جاں ہی بس اپنا اثاثہ ہے
میں دِل کی خبر رکھّوں ، تم جاں کا پتہ رکھنا

وہ چاند جو تکتا ہے کھڑکی کی سلاخوں سے
دروازے سے آئے گا ، دروازہ کھلا رکھنا


اشعار ہیں مصحفؔ کے اوروں سے الگ جیسے
انداز لگاوٹ کے تم سب سے جدا رکھنا

****

سچ کا پیالہ

ہم نے سچ کو
اتنا توڑا
اتنا کھینچا
اپنی اُنگلی میں پہنا
(جیسے نگیں ہو)
بیوی کے جوُڑے میں باندھا
(پھول ہو کوئی...)

کھَٹ کھَٹ کھَٹ کھَٹ
کھَٹ کھَٹ کھَٹ
ٹِک ٹِک ٹِک
ہم نے لمحوں ۔ صدیوں
جھوٹ کے آہن اوزاروں سے
سچ کو اتنا پیٹا
(شاہوں کی خلعت کے شایاں)
چاندی
اور سونے کے تار بنے
پیلے پھول
رو پہلی کِرنیں
دن اور رات بنے
اِک دِن اپنے گھر سے باہر نکلے تو دیکھا۔۔۔
ہر نکّڑ پر
بس کے کیو میں
رِشی ، مُنی، اوتار کھڑے
سچ کا پیالہ ہاتھ میں تھامے
ریستورانوں۔کافی ہاؤس
ہر پب۱ میں سقراط ملے!!

****
۱ Pub

خاک زاد

ابھی تو شیو* تک نہیں کیا
نہ چائے پی
ابھی میں اپنے آپ سے نہیں ملا
نہ اُس سے بات کی
یہ کیسی خاک تھی جو اپنی ہی نَمی سے دھُل گئی
جو اپنے آپ رُل گئی
جو میرے پاؤں سے لپٹ گئی
جو میرے سَر ،جو میرے نام ہو گئی
جو میرے ساتھ یوں چلی
کہ دو قدم پہ زندگی کی شام ہو گئی!!

* (Shave)
****

نیم دائرے

ہزار ، لاکھ کروڑوں برس میں بکھرا وقت
زمیں کے گزرے ہوئے ’ کَل‘ کا ایک حصّہ ہے
زمیں کے گزرے ہوئے ’ کَل‘ میں میرا ’ کَل‘ بھی ہے
مرے لہو کے بھی سِکّے ہیں اُن خزانوں میں
زمیں نے جن کو لُٹایا ہے آسمانوں میں
وہ ننّھے ننّھے ستاروں کے ٹمٹماتے چراغ
جو میرے اشکوں سے تابندہ ہیں ۔ وہ گول سا چاند
وہ چرخہ کاتتی بُڑھیا جو اُس میں بیٹھی ہے
وہ میری ماں کی طرح ہے ۔ وہ میری بیٹی ہے!!

***

غزل

ایک ہوتی تو دُکاں لے جاتا
دِل سا بازار کہاں لے جاتا

اپنی پلکوں پہ اُٹھائے پھرتا
تیرے قدموں کے نشاں لے جاتا

خواب لے جاتا ، کبھی حسرتِ خواب
شمع بجھتی تو دھُواں لے جاتا

میں کبھی ہاتھ پکڑ کر تیرا
جانبِ وادیِ جاں لے جاتا

کھول دیتا مری زنجیریں سب
اپنی چشمِ نگراں لے جاتا

عکس پتھّر پہ ہی رہنے دیتا
ہُنرِ شیشہ گراں لے جاتا

کیا مِرا ہونا نہ ہونا میرا
میرے سب نام و نشاں لے جاتا

وسعتِ گوشۂ خلوت سے ہوں تنگ
میں کہاں کون و مکاں لے جاتا

قفل ہونٹوں پہ ، بغل میں دابے
اِک کتابوں کی دُکاں لے جاتا

اُٹھ کے راتوں کو کیے ہیں سجدے
اپنے ماتھے کا نشاں لے جاتا

ایک آ نسو نے ڈبویا مصحفؔ
اِس سمندر کو کہاں لے جاتا
****

نئی نظم

نئی نظم لکھ کر
کہو ۔ جی کا کچھ بوجھ ہلکا ہوا

اِسی طرح تم روز نظمیں لکھو گے
تو اِک اور دیوان ہو جائے گا
اور آہستہ آہستہ
جینا بھی آسان ہو جائے گا!

****

تھکن


اگر مجھ سے ملنے
وہ آئے
تو کہنا میں گھر پر نہیں ہوں

وہی ایک محوَر
وہی اِک مدار
مرے گِرد
اُڑتے ہوئے چاند، سورج، ستارے
فاصلوں کا غبار

نہیں۔ اب وہ آئے تو کہنا
اُسے ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے اس قدر تھک گیا ہوں
کہ اب اس سے ملنے کا یارا نہیں ہے!
***

غزل

اَگلے وقتوں ، گئے زمانوں میں
ڈھونڈیے مجھ کو داستانوں میں

یہ قفس کس نے کر دیے تعمیر
اِک زمیں پر ، کچھ آسمانوں میں

پی کے میرا لہو بھی جی نہ بھرا
ذائقے تھے عجب زبانوں میں

آج اُس سے ملے تو لوٹ آئے
بھولے بسرے ہوئے زمانوں میں

لب چکیدہ خموشیاں اُس کی
جانے کیا کہہ رہی ہیں کانوں میں

پھول جنگل کے مجھ کو بھاتے ہیں
کام کرتا ہوں کارخانوں میں

اجنبی خواہشیں نظر آئیں
کل تری آنکھ کے مکانوں میں

ایک بندوق کے نشانے پر
میں پہاڑوں پہ ، میں ڈھلانوں میں

آئے ہو اِس گلی میں اب مصحفؔ
قفل جب پڑ گئے مکانوں میں

***

غزل

جانے کس لیے رُوٹھی ایسے زندگی ہم سے
نام تک نہیں پوچھا بات بھی نہ کی ہم سے

دیکھو ، وقت کی آہٹ تیز ہوتی جاتی ہے
جو سوال باقی ہیں پوچھ لو ابھی ہم سے

کوئی غم اِدھر آئے، اس کو گھورتی کیوں ہے
اور چاہتی کیا ہے اب تری خوشی ہم سے

ایک بھولی بسری یاد ، آج یاد کیوں آئی
کیوں کسی کے ملنے کی آرزو ملی ہم سے

اُس کی ایک انگلی پر گھومتی رہی دُنیا
چاند کی طرح ہر شے دُور ہو گئی ہم سے
***

غزل

لمحۂ وصلِ آفتاب کہاں
قطرۂ شبنمِ خراب کہاں

عمر کی رات جاگ کر کاٹی
میری آنکھوں میں کوئی خواب کہاں

میرے سر پر بھی اِک ٹپکتی چھت
تیری رحمت ہے یہ ، عذاب کہاں

یہ زمیں گھومتی ہے جانے کیوں
جا رہا ہے وہ ماہتاب کہاں

ان کھلونوں کے پاس رکھّی تھی
کھو گئی عمر کی کتاب کہاں

گھر ہے رُسوائیوں کا یہ مصحفؔ
آگئے آپ اِدھر جناب کہاں
****

اجنبی

دِن بھر لوگ مِرے
کپڑوں سے ملتے ہیں
میری ٹوپی سے
ہاتھ ملا کر ہنستے ہیں
میرے جوتے پہن کے ۔ میری
سا نسوں پر چلتے ہیں

(اپنے آپ سے کب بچھڑا تھا)

دِن کے اس انبوہ میں مجھ کو
کچھ بھی یاد نہیں آتا
رات کو اپنے ننگے جسم کے
بستر پر
نیند نہیں آتی!!

***

بہتے آ نسو کو کوئی روکے؂۱

یاد آتا ہے وہ اِک لمحۂ وصل
تیری آنکھوں میں جو جاگا تھا کبھی
تیری پلکوں کو جو نَم کر گیا
رُخساروں پر
اپنے ہونٹوں کے نشاں چھوڑ گیا
اپنی پلکوں پہ کوئی اور چراغ اب نہ جلا
اپنے تاریک بدن میں کسی جگنو کو نہ ڈھونڈھ
اس سمندر میں اِک آ نسو کو نہ ڈھونڈھ
وقت کے بہتے ہوئے ریلے میں
تیرے گزرے ہوئے روز و شب کا
کوئی چہرہ نہ نظر آئے گا
اب وہ لمحہ نہ نظر آئے گا

***
؂ ۱ ’’بہتے آنسو کو کوئی روک نہیں سکتا ہے‘‘ ۔۔میرا جی
****

غزل

نقشِ قدم تھا وہمِ سفر تک
کوئی نہیں تھا حدِّ نظر تک

کالے جنگل ، تھاہ سمندر
تیرے گھر سے میرے گھر تک

بھیڑ تھی کیسی دوکانوں پر
کوئی نہ پہنچا اپنے گھر تک

میں ہی کسی کو یاد نہ آیا
میں نے نہیں لی اپنی خبر تک

اِک بھاری زنجیر تھی دُنیا
دفتر سے ... بازار سے ... گھر تک
***

غزل

چہرے پر وحشت سی ہے
بالوں میں بھی مٹی ہے

میں نے پھر اپنی صورت
پانی میں کیوں دیکھی ہے

اِک کُٹیا میں بیٹھا ہوں
اِک پربت کی چوٹی ہے

سوچو تو دَم گھُٹتا ہے
دُنیا کتنی چھوٹی ہے

جیون ہے یا پُرکھوں کے
پاپوں کی اِک گٹھری ہے

تم ہی اس کو سمجھاؤ
تم نے دُنیا دیکھی ہے

دِل کے ساحل پر اُتروں
جانے کیسی بستی ہے

اس کو سونا کہتے ہو
یہ تو پیلی مٹّی ہے

نام اقبالؔ کا دیکھو تو
مصحفؔ ہے ... توصیفیؔ ہے ...


***

غزل

ایک غم ہے ، اُسے اپنا جانیں
ہم کسی اور کو کیا پہچانیں

مجھ کو برباد کر ، آباد بھی کر
جھوٹ اس طرح سے کہہ ، سچ جانیں

خواب دیکھیں نئےسر سے تیرے
پھر ترے دھیان کی چادر تانیں

دِل کے بازار کا نقشہ تھا عجیب
چاند نکلا تو کھُلیں دوکانیں

چھیڑتے ہیں اُسے خود ہی مصحفؔ
اُس کی باتوں کا بُرا بھی مانیں
***

تجربہ گاہ

پتھّر کے کمرے میں اُس نے
مٹی، دھات، نمک کو
ایٹم۔ اور اس سے بھی چھوٹے ذرّوں میں با نٹا
اِک اُونچی میز پہ لیٹے وقت کو کلوروفارم سونگھا کر
اُس کے ایک ایک عضو کو کاٹا
(صدیوں......برسوں اور مہینوں...اِک اِک پَل میں)
ایک تِکونے چِمٹے سے
ایک سلائڈ پر میری کچھ سانسیں رکھّیں
شیشے کی نلکی سے
میری گردن کو ہلایا
دو آنکھوں میں
ماضی، حال اور مستقبل کے خواب جگائے
اِک تیزاب سے مجھ کو اندھا کر کے
اِک ٹس ٹیوب۱؂ ذرا سا ٹیڑھا کر کے!!
***

۱؂ Test-Tube

غزل

دھُوپ سر پر ہے ، اُٹھو ، ضد مت کرو
چائے کی پیالی ؟ یہ لو ، ضد مت کرو

اپنی زُلفوں سے مجھے باندھا ہے کیوں
ہاتھ میرے کھول دو ، ضد مت کرو

ٹھیک سے چلنا تو پہلے سیکھ لو
اتنے اُونچے مت اُڑو ، ضد مت کرو

پاس بیٹھو گے ، تو پھر کھو جائے گی
دُور ہی سے دیکھ لو ، ضد مت کرو

زخم جاگ اُ ٹھ)یں گے پھر، کروٹ نہ لو
رات ہے ، لیٹے رہو ، ضد مت کرو

آستیں سے اپنی آنکھیں پونچھ لو
جاؤ اُس سے بھی مِلو ، ضد مت کرو

شہر کے بازار ، سڑکیں سو گئیں
اب اُٹھو ، اب گھر چلو ، ضد مت کرو

مصحفؔ اُس کا دِل دُکھانا ہے ضرور؟
ایسے پتھّر مت بنو ، ضد مت کرو
***

غزل

چاہیے عرشِ بریں بھی اس کو
یاد آتی ہے زمیں بھی اس کو
لے گئے میرا نشانِ کفِ پا
کر دیا صرفِ جبیں بھی اس کو
ایک اِک اینٹ شناسا نکلی
یاد تھے سارے مکیں بھی اس کو
دیکھنا آنکھ کی دیوار کے پاس
ڈھونڈنا دِل کے قریں بھی اس کو
چھَٹ گئی تیرگیِ وہم و قیاس
ہو عطا نورِ یقیں بھی اس کو
چھیڑنا بات سنبھل کر مصحفؔ
کہنا آتا ہے ’نہیں‘ بھی اُس کو
***

غزل

نشتروں پر جسم سارا رکھ دیا
زخم پر لفظوں کا پھاہا رکھ دیا

رات کی بھیگی ہوئی دیوار پر
میں نے اِک روشن ستارہ رکھ دیا

رات تم نے روشنی کے کھیل میں
کیوں مرے سائے پہ سایہ رکھ دیا

میں نے وہ پتوار بھی لوٹا دیے
بیچ دریا کے کنارا رکھ دیا

پھول تھے اُن میں مگر خوشبو نہ تھی
لفظ کو سونگھا ، اُٹھایا ، رکھ دیا

دُشمنی اچھّی نکالی وقت نے
بوجھ اِن کاندھوں پہ کیسا رکھ دیا

سب تماشا ، کھیل سارا اُس کا تھا
نام ناحق ہی ہمارا رکھ دیا
***

میں یہ چاہتا ہوں

میں یہ چاہتا ہوں سمندر کے ساحل پہ
بھیگی ہوئی ریت پر گال رکھے
چند لمحے
اسی طرح لیٹا رہوں
مگر وقت کی بھیڑ میں
مرے پاس اپنے لیے
چند لمحے کہاں
ہواؤں کے اس شور میں
میرے گریبان کی دھجّیاں
اب کہاں
سمندر کی آغوش میں اتنی لہریں ہیں۔۔۔
ایک بھی لہر ایسی نہیں
جو لے جائے مجھ کو بہا کر
اِک ایسے جزیرے کی جانب
جہاں کوئی رہتا نہ ہو
جہاں پانیوں میں مری استھیاں
ہَوا میں
مرے نام کا کوئی سایہ نہ ہو!!

***

غزل

نام لکھو اس پر میرا
اب پھینکو پتھّر میرا

یہ دِل کی گیلی مٹّی
یہ مٹّی کا گھر میرا

مجھ پہ جھُکا میرا سایہ
ہاتھوں میں خنجر میرا

ماں نے کہا ’’تو میرا ہے‘‘
وہ بولی شوہر میرا

صبح ہوئے لوٹا دینا
یہ انجر پنجر میرا

اُن آنکھوں نے دیکھا ہے
سب اندر باہر میرا

بستر پر اِک لاش ملی
رات نے کھولا گھر میرا

کیسی اُس کی ناؤ چلی
ڈوب گیا پتھّر میرا

شکوے کی بھی ایک رہی
کیا حق تھا اُس پر میرا

***

غزل

کھڑی ہوئی ہے تیرے سروپ
چائے کی پیالی تھامے دھُوپ

ساگر ، موتی ، بادل ، اوس
اِک آ نسو اتنے بہروپ

میرے اندر تیری چھاؤں
میرے مُکھ پر تیری دھُوپ

میرے شعر الگ سب سے
جیسے تیرا رُوپ انوپ

مصحفؔ بدلے بھیس نئے
روز نیا ساجے بہروپ

***

غزل

رخصت اِک عہدِ جوانی ہی نہیں
کیا کہیں ۔ کوئی کہانی ہی نہیں

اُس نے اِک تصویر بھی مجھ کو دِکھائی
میں نے اپنی شکل پہچانی نہیں

آپ ہم کو لاکھ اُکسائیں جناب
آپ بیتی تو سنانی ہی نہیں

جیسے شبنم ہو رگِ گُل میں رواں
میں ترا آ نسو ہوں ، پانی ہی نہیں

خواب اِک مُٹھّی میں میری رکھ دیا
میں نے روکا بھی ، وہ مانی ہی نہیں

سن رہا ہوں ہاتھ میں ٹھوڑی لیے
جیسے یہ میری کہانی ہی نہیں

ہم بھی اپنے دشمنوں کی صف میں تھے
دوستوں کی مہربانی ہی نہیں

مصحفؔ اپنے فن میں کچھ اپنا لہو
خاکِ کوئے میرؔ و فانیؔ ہی نہیں


***

غزل

کوئی آگے ہے نہ پیچھے میرے
سائے پڑنے لگے دھُندلے میرے

میں نہیں تھا ، مرا غم تھا تیرا
تیرے ہمراہ تھے سائے میرے

میری آنکھوں میں بھلا نیند کہاں
خواب دیکھے تھے لہو نے میرے

اب کوئی یاد نہ چھیڑے مجھ کو
اب کوئی پاس نہ بیٹھے میرے

یاد آئیں کئی بھُولی باتیں
وہ سناتا رہا قصّے میرے

***

خوابوں کا شہر۱

یہ شہر ہے کہ کسی خواب کی امانت ہے
وہ خواب جس کی زمیں بھی ہے آسماں کی طرح
محیط ہے مری راتوں پہ سائباں کی طرح
اسی کی خاک میں پوشیدہ میری جنّت ہے
وہ ایک خواب کہ محور ہے چار صدیوں کا
وہ اِک ستارہ بنا جو طلوعِ صبح کا باب
سفر پہ اپنے روانہ ہے مہرِ عالم تاب
سفرمدام سفر بے شمار صدیوں کا
ہزار آنکھیں اُسی ایک عکس کی تصویر
جو دِل کا نور ، دماغوں کی روشنی بھی ہے
اُسی سے میرے چراغوں کی روشنی بھی ہے
ہزار خواب اُسی ایک خواب کی تعبیر
****
۱؂ شہر حیدرآباد کی چہار صدسالہ تقریب کے موقع پر لکھی گئی۔

غزل

ہم نے کہا ’’چلو تمھیں دُور یہاں سے لے چلیں‘‘
کہتی ہے ’’ٹھیک ہے ، مگر...‘‘ اب اس ’’مگر‘‘ کا کیا کریں

اپنا تو اِک چراغ تھا جس کو ہَوا بُجھا گئی
ہم نہیں جانتے اِنھیں ، شمس و قمر کا کیا کریں

قیس کی بات اور تھی اُس کا نہ کوئی گھر نہ ٹھور
یہ جو ہمارے ساتھ اِک گھر بھی ہے ، گھر کا کیا کریں

اوروں کے سامنے رہے ہم بڑی آن بان سے
اپنی نظر سے گر گئے ، اپنی نظر کا کیا کریں

***

غزل

دھُوپ سر پر ہے ، اُٹھو ، ضد مت کرو
چائے کی پیالی ؟ یہ لو ، ضد مت کرو
اپنی زُلفوں سے مجھے باندھا ہے کیوں
ہاتھ میرے کھول دو ، ضد مت کرو
ٹھیک سے چلنا تو پہلے سیکھ لو
اتنے اُونچے مت اُڑو ، ضد مت کرو
پاس بیٹھو گے ، تو پھر کھو جائے گی
دُور ہی سے دیکھ لو ، ضد مت کرو
زخم جاگ اُ ٹھ)یں گے پھر، کروٹ نہ لو
رات ہے ، لیٹے رہو ، ضد مت کرو
آستیں سے اپنی آنکھیں پونچھ لو
جاؤ اُس سے بھی مِلو ، ضد مت کرو
شہر کے بازار ، سڑکیں سو گئیں
اب اُٹھو ، اب گھر چلو ، ضد مت کرو
مصحفؔ اُس کا دِل دُکھانا ہے ضرور؟
ایسے پتھّر مت بنو ، ضد مت کرو
***

غزل

چاہیے عرشِ بریں بھی اس کو
یاد آتی ہے زمیں بھی اس کو
لے گئے میرا نشانِ کفِ پا
کر دیا صرفِ جبیں بھی اس کو
ایک اِک اینٹ شناسا نکلی
یاد تھے سارے مکیں بھی اس کو
دیکھنا آنکھ کی دیوار کے پاس
ڈھونڈنا دِل کے قریں بھی اس کو
چھَٹ گئی تیرگیِ وہم و قیاس
ہو عطا نورِ یقیں بھی اس کو
چھیڑنا بات سنبھل کر مصحفؔ
کہنا آتا ہے ’نہیں‘ بھی اُس کو
***

غزل

نشتروں پر جسم سارا رکھ دیا
زخم پر لفظوں کا پھاہا رکھ دیا
رات کی بھیگی ہوئی دیوار پر
میں نے اِک روشن ستارہ رکھ دیا
رات تم نے روشنی کے کھیل میں
کیوں مرے سائے پہ سایہ رکھ دیا
میں نے وہ پتوار بھی لوٹا دیے
بیچ دریا کے کنارا رکھ دیا
پھول تھے اُن میں مگر خوشبو نہ تھی
لفظ کو سونگھا ، اُٹھایا ، رکھ دیا
دُشمنی اچھّی نکالی وقت نے
بوجھ اِن کاندھوں پہ کیسا رکھ دیا
سب تماشا ، کھیل سارا اُس کا تھا
نام ناحق ہی ہمارا رکھ دیا

***

میں یہ چاہتا ہوں

میں یہ چاہتا ہوں سمندر کے ساحل پہ
بھیگی ہوئی ریت پر گال رکھے
چند لمحے
اسی طرح لیٹا رہوں
مگر وقت کی بھیڑ میں
مرے پاس اپنے لیے
چند لمحے کہاں
ہواؤں کے اس شور میں
میرے گریبان کی دھجّیاں
اب کہاں
سمندر کی آغوش میں اتنی لہریں ہیں۔۔۔
ایک بھی لہر ایسی نہیں
جو لے جائے مجھ کو بہا کر
اِک ایسے جزیرے کی جانب
جہاں کوئی رہتا نہ ہو
جہاں پانیوں میں مری استھیاں
ہَوا میں
مرے نام کا کوئی سایہ نہ ہو!!

***

غزل

نام لکھو اس پر میرا
اب پھینکو پتھّر میرا

یہ دِل کی گیلی مٹّی
یہ مٹّی کا گھر میرا

مجھ پہ جھُکا میرا سایہ
ہاتھوں میں خنجر میرا

ماں نے کہا ’’تو میرا ہے‘‘
وہ بولی شوہر میرا

صبح ہوئے لوٹا دینا
یہ انجر پنجر میرا

اُن آنکھوں نے دیکھا ہے
سب اندر باہر میرا

بستر پر اِک لاش ملی
رات نے کھولا گھر میرا

کیسی اُس کی ناؤ چلی
ڈوب گیا پتھّر میرا

شکوے کی بھی ایک رہی
کیا حق تھا اُس پر میرا

***

دُکھ کا امرت

ہم وہ دیوتا ہیں
جنھوں نے خوابوں کے منتھن کے بعد
دُکھ کا امرت پیا ہے
دکھ ، جو وِشال ہے
جس کا سمۓ سے کوئی رِشتہ نہیں
یہ کیسا دُکھ ہے
کیسا امرت؟
یہ ہم نے تم سے کیا مانگ لیا
نارائن ! نارائن!!
***

کِلاّری

( کِٕلاّری، ضلع عثمان آباد، مہاراشٹرا کے زلزلے سے متاثر ہو کر)

ابر کی اوٹ سے
صبح سورج نکلتا نہیں
پھُول کھِلتے نہیں
چاند تارے بھی افسردہ دِل کو لُبھاتے نہیں
زمیں (بے سبب) گھومتی ہے
گھومتے گھومتے جیسے تھک سی گئی ہے
اِک زمیں ہی نہیں۔
مرّیخ، زہرہ ، عطارد سبھی
کسی اور سورج پہ سب کی نگاہیں جمی ہیں
آنے والے دِنوں کی
آہٹیں سُن رہے ہو
یہی اپنی تقدیر ہے
قیامت کا دِن
ہماری مقدّس کتابوں میں تحریر ہے!!
***

یہ دِل مِرا

قدم قدم پہ آزمائشیں
نفس نفس یہ امتحاں
اِسی کا نام زندگی ہے۔ جانتا ہوں میں
مگر یہ دِل مٕرا
نہ جانے کس جہانِ آب و گِل کا یہ خمیر ہے
یہ چاہتا ہے، ڈھونڈ لے
جو نقش میں نے بھیگی ریت پر کبھی بنائے تھے
اُمید کے چراغ، شام ہی سے میں نے جو جلائے تھے
وہ خواب رات کی مُنڈیر تک جو آئے تھے
وہ نقش۔۔ وہ اُمید، خواب سب فسوں

(فسوں ہے۔۔ اور کچھ نہیں)

وہ نقش، وہ اُمید، خواب سائے ہیں
میں اُن کو جسم کیسے دُوں
میں اپنے دِل سے بارہا یہ کہہ چکا
اب اور کس طرح کہوں

سنیما، تھیٹروں، کلب
میں اس کو اپنے دوستوں کے پاس لے گیا
مگر یہ دِل مِرا۔
کسی کو دیکھتا نہیں
کسی کو مانتا نہیں

عجیب رات آئی پھر
میں اپنے دِل سے۔
اپنی زندگی سے
دوستوں سے دُور ہو گیا
پلنگ پر پڑی تھی اِک رِدائے بے حسی
اُسی کو اوڑھ کر
میں سوگیا!!

***

شاذؔ تمکنت کی یاد میں

یہ سمجھو ہم بھی زندہ ہیں
جب تک آنکھوں میں تیرا چہرہ
کانوں میں آوازیں باقی ہیں
دِل میں تیری یاد کی دھڑکن
آ نسو اور آہیں باقی ہیں
تیری نظموں ، غزلوں کے ایوانوں میں
لفظوں سے مہکی راتیں
معنی کی باقی ہیں؟؟؟
ایسا لگتا ہے خواب تھا کوئی
نیندیں ٹوٹی ہیں، رات ہے اب تک
جیسے تیرا ساتھ ہے اب تک
ایسا لگتا ہے کاندھے پر
تیرے غم ، تیری یادوں کا
ہاتھ ہے ، اب تک!!

***
رُوح میں طوفان سا ، جاں میں بھنور ہے الگ
دشتِ صدا میں گھِرا آنکھ کا گھر ہے الگ

سر کو چھُپائیں کہاں ،بارشِ سنگ اِک طرف
دِل کو سنبھالیں کہ یہ کانچ کا گھر ہے الگ

تُو جو بہت پاس ہے ، دُور سے دیکھوں تجھے
پاس بلاؤں اُسے ، تجھ سے اگر ہے الگ

چشمِ معانی میں ہے اور ہی منظر کوئی
لفظ وہی ، لب وہی ، دِل پہ اثر ہے الگ

وہ نہ بُرا مان جائے ، میں کہیں کچھ کہہ نہ دوں
بھائی کا اپنے خیال ، مجھ پہ نظر ہے الگ

وقت کی اس ریت میں بیج جو ہم بوگئے
اُس کا ثمر ہے الگ ، اُس کا شجر ہے الگ


***

دُکھ کے رِشتے

پہلے بڑے
پھر چھوٹے
سب نے ہم پر دھونس جمائی
سب نے ہمارے سینوں کی چھت
سا نسوں کے فرش پہ رمبا ناچا
بے ہنگم فلمی گیتوں کی
کھیلی اَنتاکشری
ہم نے کتنی راتیں
آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹیں
میں نے نظمیں لکھ کر
کچھ تو بوجھ اُتارا
اُس نے...

...

صبح کی کرنوں کی پہلی دستک پر
گھر کا دروازہ کھولا
تھکے ہوئے بیمار بدن کی
باسی پھولوں جیسی خوشبو سے
سارا کچن مہکایا
کھانے کی میز پہ
دونوں بچّوں
میری ماں کو بلایا !!

***

غزل

میرے خون کے پیاسے ہوں گے لیکن لوگ جیالے تھے
اُن کے سر پر دھوپ کی چادر ، اُن کے پاؤں میں چھالے تھے

اُس گھر کے دیوار و دَر سے جانے کیسا رِشتہ تھا
گھوم گھوم کر ہم نے دیکھا دروازوں پر تالے تھے


کچھ نے ہاتھ پکڑ کر روکا ، کچھ نے رستہ روک لیا
ورنہ ہم نے سوچ لیا تھا ، اس سے ملنے والے تھے


تم بچھڑے تو ہم سے ملنے کتنی خوشیاں غم آئے
ہم نے اُن کی شکل نہ دیکھی ، گورے تھے یا کالے تھے


’’ممّی ! ممّی ! بولو یہ انکل اچھٓے ہیں یا پاپا‘‘
اُس کے بچےّ توبہ توبہ آفت کے پرکالے تھے


اُس کو دیکھا تو آنکھوں میں لفظ اشکوں سے بھیگ گئے
مصحفؔ ہم سے جھوٹ نہ بولو تم کچھ کہنے والے تھے

***

غزل

یہ کیسا کھیل ہے اب اُس سے بات بھی کر لوں
کہے تو جیت کو اپنی میں مات بھی کر لوں


یہ اختیار مرا تجھ کو جس طرح سوچوں
سحر کو شام کہوں ، دِن کو رات بھی کر لوں


بُلاؤں ۔(اشکوں سے روشن کروں یہ آنکھ کا گھر)
کسی کی یاد کو اور دِل سے گھات بھی کر لوں


یہ دُکھ بھی ساتھ چلے گا کہ اب بچھڑنا ہے
اگر سفر میں اُسے اپنے ساتھ بھی کر لوں


کسی کا نام نہ لوں اور غزل کے پردے میں
بیان اُس کی میں ساری صفات بھی کر لوں


تُو میری ذات کا محور ، مرا مدار بھی تُو
یہ مشتِ خاک اسے کائنات بھی کر لوں

***

غزل



سایہ آسماں کا ہے
اِک یقیں گماں کا ہے

بے سبب ستاتے ہو
عُذر امتحاں کا ہے

بیتی رُت ، گئے لمحے
رنج رفتگاں کا ہے

ہر نشان منزل کا
عشقِ بے نشاں کا ہے

اُس کے دَر سے اُٹھتے ہو
اب سفر کہاں کا ہے

دِل کا کچھ نہ بگڑے گا
جو زیاں ہے، جاں کا ہے

دِل اُسی گلی میں ہے
رُخ اُسی مکاں کا ہے

اُس سے کچھ نہیں کہتے
شکوہ آسماں کا ہے

موج سی لہو کی ہے
یا سراب جاں کا ہے

باپ کی دُعائیں ہیں
سر پہ ہاتھ ماں کا ہے

***

رات بھیگ رہی ہے

ہمیں تو دو گز زمین ہی بہت تھی
ہم کیا کریں
یہ گھومتی ہوئی پُراسرار دھرتی
اور یہ کائنات...
اتنی وسیع۔
اتنی پیچیدہ
اور اس کائنات سے پَرے
ایک اور سورج
ایک اور کائنات
اور اس سے بھی پرے......
خود ہمارے اندر۔
ہزاروں سورج
جگنو کی طرح جلتا بجھتا آسمان
گھنے سیاہ بادل
پاتال...
ہمارے سر پر سا نسوں کی گٹھری
ایک پاؤں میں شر کا پہّیہ
بغل میں خیر کی بیساکھی
ہماری آنکھیں
چیونٹی سے بھی چھوٹی
اور دماغ کے کیڑے
خوردبین کی زَد سے باہر
اُس کی باتیں وہی جانے
رات بھیگ رہی ہے
آؤ۔ دُعاؤں کی نئی فہرست بنائیں
اُٹھو۔ نماز پڑھیں
اور سوجائیں!!
***

تھرڈ امپائر



شاہراہوں ، بس اسٹینڈ، گھر کی چھتوں
پیڑ کی
پھُننگوں سے لٹکے ہوئے لوگ سب
منتظر ہیں کہ میں اپنے بستر پہ کب لیٹتا۔
رات کو خواب کیا دیکھتا۔
دِن میں کیا سوچتا ہوں


ہزاروں تماشائیوں کی اُدھر بھیڑ ہے
اِدھر میں یونہی۔
دوڑتا ہوں
ازل سے یونہی۔
بے تکاں دوڑتا ہوں
اُسی پِچ
اُکھڑتی ہوئی چند سانسوں کی وِکٹوں کے بیچ
اُسی گھر کے ، دفتر کے بیچ


زمیں پر ہوں میں اور وہ آسماں پر
مگر میرے دفتر میں آتا ہے وہ
سڑک پر مرے دوستوں سے مری بات کرتا ہے سرگوشیوں میں
کبھی فون پر
مرے گھر کا نمبر گھُماتا ہے وہ

مری نبض پر اپنی اُنگلی رکھے
کبھی سبز بتیّ
کبھی سرخ بتیّ جلاتا ہے وہ!!
***

اِک چراغ کی لَو میں



کاش تم نہیں لکھتے
اتنی ڈھیر سی غزلیں۔
یہ فضول سی نظمیں...
کاش تم سمجھ سکتے
تلخیِ حوادث کا
زہر سب ہی پیتے ہیں
کوئی غم نہیں ہم کو؟
دیکھو ہم بھی جیتے ہیں
دیکھو، وہ مکانوں کی
اِک قطار ہے جن میں
مرد، عورتیں، بچےّ
سر جھُکائے بیٹھے ہیں
اِک چراغ کی لَو میں
اپنے زخم سیتے ہیں

عشق اور ایسا عشق...؟
حُسن۔کون؟ کیسا حُسن؟
تم کو اُس سے کیا لینا
ساتھ جو نہیں بیٹھے
پاس جو نہیں آئے
دوستی ، وفا۔ چھوڑو
لفظ ہیں کتابوں کے
راس جو نہیں آئے

شام کو پرندے جب
لوٹتے ہیں شاخوں پر
تم بھی صبح کے بھُولے
اپنی راہ ہولیتے
پاس بہتی ندّی میں
ہاتھ، منہ ذرا دھوتے
منتظر تھی برسوں سے
وہ جو گھر کی چوکھٹ تھی
وہ جو ایک آنگن تھا
ایک ہی تو دامن تھا
پھر اسے بھگو لیتے
ماں کی گود میں اپنا
سر چھُپا کے رو لیتے!!


***Align Right

ایک نظم۔ تمھارے نام

خزاں کی آہٹیں سُن رہی ہو
میرا جسم بُجھ رہا ہے
میری سا نسوں کے پھول پتےّ
مُرجھا رہے ہیں

میں وقت کی شاخ سے
نہ جانے کب ٹوٹوں
اور بکھر جاؤں
میری کتابیں ، باتیں ، تصویریں
کسی مائکرو فلم ، آڈیو یا ویڈیو کیسٹ پر
یا کسی سی۔ڈی میں
محفوظ کر لو
دیکھو۔ اب بھی وقت ہے
مگر وقت بہت کم ہے
مجھے آخری بار چھُو لو
میرے خیال کے سینے پر سر رکھ کر
کمپیوٹر سے میری فلاپی نکال کر
اپنے بلاؤز کے گریبان میں ڈال لو
نہ جانے کب۔
یہ پہاڑ ، جنگل ، شہر، سمندر، پاتال، خلا
(جنھیں میں نے جی بھر کے دیکھا تک نہیں)
لکیروں میں ڈھل کر
گھَٹتے ہوئے دائروں۔
ایک ایسے نقطے میں سمٹ جائیں
جو اپنے ہی مرکز کی گہرائی میں ڈوب جائے!!

***

غزل

کوئی بیمار پڑ جائے تو ا چھّا کیسے کرتے ہو
دِکھاؤ تو مسیحائی کا دعوا کیسے کرتے ہو

ہزاروں جاگتی آنکھیں سراغ اُس کا نہیں پاتیں
تم آنکھیں بند کر کے اُس کو دیکھا کیسے کرتے ہو

اگر بے مہر ہے تو روز کیوں جا جا کے ملتے ہو
اگر پتھّر اسے کہتے ہو سجدہ کیسے کرتے ہو

حیا ایسی ، ادب اتنا ، ہماری عقل حیراں ہے
ارے... تم مرد ہو کر اس سے پردہ کیسے کرتے ہو

یہ آ نسو توڑ دے گا سب حصارِ جسم و جاں اِک دِن
یہ دریا جب اُمڈتا ہے تو روکا کیسے کرتے ہو

وہ اپنی گھر گرہستی میں مگن ہے ۔ ٹھیک ہی تو ہے
جسے پانا نہیں اُس کی تمنّا کیسے کرتے ہو

***

غزل

اشک پلکوں کے کنارے تیرے
آسماں ، چاند ، ستارے تیرے

چارسُو میں نے بِچھا دِیں آنکھیں
ہر طرف تُو تھی ، نظارے تیرے

کیسی دیوار تھی خاموشی کی
کچھ تو تھا ، بیچ ہمارے تیرے

کیا ہوا تیرا وہ پندارِ اَنا
کیا ہوئے سارے غبارے تیرے

دیر سے آئی ذرا وصل کی شب
سو گئے ہجر کے مارے تیرے

رات دیتی رہی در پر دستک
منتظر صبح تھی دُوارے تیرے
**

ہمیں اتنا نہ آیا...


ہمیں اتنا نہ آیا اپنے دِل کی بات ہی کہہ لیں
کوئی پیرایۂ اظہار مِل جاتا
اگر تجھ سے محبّت ہی نہ ہوتی تب بھی کیا ہوتا
ہمارے روز و شب کو
اگر تیری ضرورت ہی نہ ہوتی تب بھی کیا ہوتا
کسے فرصت کہ ان اندھے کنوؤں میں جھانک کر دیکھے
اَوروں کے دِل کے بھید ڈھونڈھے
مگر اِک پھول پر رُک کر کوئی اُڑتی ہوئی تتلی
نہ جانے جھُک کے کیا کہتی ہے ، ۔۔۔کلیاں
کھلکھلا کر زور سےہنستی ہیں ،۔۔۔ شاخیں
جھوم جاتی ہیں

تمنّا کیا اگر آسائشِ عرضِ تمنّا ہی نہ ہو حاصل
ہماری آنکھ میں آ نسو ہے ۔ دِل میں اِک سمندر سا
اب اُن لہروں پہ بہتے ہیں، نہیں جن کا کوئی ساحل

ہمیں اتنا نہ آیا اپنے دِل کی بات ہی کہہ لیں
ہمیں اتنا نہ آیا اپنے دِل کی بات ہی کہہ لیں!!

***

غزل

آگیا پھر دِیا جلانے کون؟
رکھ گیا خواب اِک سرہانے کون؟

ایک دِن دِل دُکھا دیا اُس کا
روز کرتا نئے بہانے کون؟

میری مٹّی کو دونوں ہاتھوں میں
لے گیا دُور تک بہانے کون؟

رکھ گیا میری بند پلکوں پر
مہر و مہتاب کے خزانے کون؟

وہ نہ چھوڑے گا ساتھ اوروں کا
مل گیا اب اُسے نہ جانے کون؟

مصحفؔ اِک بار کھول دو آنکھیں
دیکھو بیٹھا ہے یہ سرہانے کون؟

***

غزل

کھڑکی کے پردوں پر کیسا سایہ ہے
دروازہ تو کھولو کوئی آیا ہے

میری خاموشی نے خواب عجب دیکھا
لب پر تیرا نام ہے اور تُو آیا ہے

ہم سے تو بے کار ہی نالاں رہتا تھا
غیر سے مِل کے اب کیسے پچھتایا ہے

سورج ہو گا ۔ ہو گا ، اس کو کیا دیکھوں
سوچوں میرا چاند ابھی گہنایا ہے

ذہن کی دَوڑ بہت ہو گی ، سو دو سو گز
آنکھ نے جو بھی دیکھا تیری مایا ہے

اِک بے نام سفر ہے نوری سالوں کا
کس نے تجھ کو دیکھا ،کس نے پایا ہے

سورج ڈوبا ، ہم دفتر سے گھر لوٹے
کُتّا منہ میں گیند دبا کر لایا ہے

اُس کے جسم کے جنگل میں آرام کریں
کیسا میٹھا پانی ، ٹھنڈا سایہ ہے

دیکھیں اُس کا غم ہے یا پھر اور کوئی
جانے اتنی رات گئے کون آیا ہے

***

غزل

بازوئے شب میں سمٹنا میرا
چاند کی طرح سےگھَٹنا میرا
پاشنہ کوب بگولے کی طرح
اپنی ہی سمت پلٹنا میرا
کھیلنا دھیان سے اُس کے پہروں
پھر نقاب اُس کی اُلٹنا میرا
ایک ہی لفظ کو اوڑھے رہنا
ایک ہی نام کو رَٹنا میرا
ایک ہی شاخ کی رِت میں رہنا
ایک ہی وار میں کٹنا میرا
کتنے دیپوں کا سفر تھا مصحفؔ
بہتے آ نسو میں سمٹنا میرا

***

غزل

بس اِک رُوح کیا ہے ، بدن بھی تو ہے
لہو رنگ یہ پیرہن بھی تو ہے
نظر میں رہے خوش لباس اور بھی
مگر ایک رنگِ بدن بھی تو ہے
ابھی عشق سے دُور رکھّو مجھے
ابھی قیس ہے ، کوہکن بھی تو ہے
خزاں میں ابھی تک ہے رنگِ بہار
یہ صحرائے جاں اِک چمن بھی تو ہے
مرے ساتھ اس ساعتِ وصل میں
شبِ ہجر ! تیری تھکن بھی تو ہے
اب آ اور لگ جا گلے سےمِرے
کہ یہ ایک رسمِ کُہن بھی تو ہے

***

تھرڈ ڈِگری

زندگی اس طرح گزری
جیسے ریل میں سفر کرتے ہوئے
کچھ بجلی کے کھمبے
ایک...دو...تین...چار...
کچھ ٹوٹے پھوٹے مکان گزر جائیں
اور اُن کے ساتھ
ننھے بچوں کی ہنسی کی آوازیں
کِلکاریاں
جوان عورتوں اور مَردوں کے قہقہے
خواہشوں کی کچّی لکڑیاں
اور اُن کا دھُواں
آنکھ کے آ نسو
پیڑوں کے جھُنڈ

ایک...دو...تین...چار...
نہ جانے کب سگنل کی ہلکی سی جنبش پٹری کی لکیروں کو
تنہا چھوڑ دے
نہ جانے کب کوئی سِلو باؤلر
بہت جلد اپنا اووَر ختم کر دے
(نوبال یا وائڈ کا اشارہ ضروری تو نہیں)
اور سارا کھیل ختم ہو جائے
چند تصویریں
ایک...دو...تین...چار...
کوئی میرے قدموں میںسُرعت سے پھینک دے
کوئی انجانا ہاتھ
اور کوئی غیبی آواز
ان تصویروں کو جوڑتی ہوئی کوئی کہانی گھَڑ دے
اور مجھ سے کہے ’’یہ کہانی تمھاری ہے‘‘
یہ چاند، سورج، ستارے
بازار، گلی،نُکڑ
تم ہی ان کا محور ہو

اتنے بڑے الزام کا بوجھ

میری مِٹی پر رکھ دے
اور اس سے پہلے کہ میں ریل کی پٹریاں
باؤلر کا گھومتا ہوا ہاتھ دیکھ سکوں
اپنے قدموں میں پڑی ہوئی تصویروں کو اُٹھا سکوں
اتنا بڑا الزام
ایسا اِتہام...
میں سوچنے کی کوشش کرتا ہوں
کوئی اپنی سرد اُنگلیاں میری آنکھوں پر رکھ دیتا ہے
تاریکی، گہری اور گہری ہوتی جا رہی ہے
ایک نشتر کی ٹھنڈک
میرے لہو میں گھُل رہی ہے
مجھے نیند آ رہی ہے
’’اتنا بڑا الزام...‘‘
میں سوچ رہا ہوں
میں سو رہا ہوں

میں نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں اقبالِ جرم کرتا ہوں!!

***

خاکسار

خُدایا
یہ جیب و گریباں
مِرے پاس کچھ بھی نہیں
یہ دُنیا جو تُو نے مجھے دی
محض کھیل ہے اِک تماشا
لہو کے یہ رِشتے، یہ آنے دو آنے، یہ پیتل کےسکّے
یہ مِٹّی کے رنگیں کھلونے
ابھی میرا بچپن سہی
(مِرا سِن بہت ہو گا پچپن سہی)
مگر اب میں شاید بڑا ہو گیا ہوں
یہ دُنیا، مجھے اب یہ دُنیا نہیں چاہیے
خدایا! مجھے اتنی طاقت عطا کر
کہ میں بہرِ سجدہ ترے رُو برو ہو سکوں
مِری آنکھ میں اشک دے
کہ اپنے گناہوں پہ میں رو سکوں
مِرے قلب میں اپنی رحمت کی اکسیر رکھ دے
کہ میں قبر میں چین سے سو سکوں!!

***

تم کہتے ہو..


تم کہتے ہو تو مان گئے
ورنہ ہم نے یہ دیکھا ہے
کوئی دُکھ ہو، کوئی راحت ہو
کوئی پیماں ، کوئی چاہت ہو
ہم نے دیکھا ہم اپنے ہی
اشکوں سےجَل تھل ہوتے ہیں
کوئی لاش ہو بیتے لمحوں کی
اپنے کاندھے شل ہوتے ہیں
تم کہتے ہو تو مان گئے
ورنہ ہم اب بھی کہتے ہیں
ہم ایک ادھورا سپنا ہیں
کیوں عرش پہ ہم کو لے جاؤ
ہم فرش پہ ریزہ ریزہ ہیں
ہم ٹوٹ چکے ۔ ہم تنہا ہیں
ہم تنہا ہیں ۔ ہم جان گئے
تم کہتے ہو ’’تم میرے ہو
تم میرے ہو ۔ تم میرے ہو‘‘
تم کہتے ہو تو مان گئے

***

غزل

اُس نے سنایا ہم کو اپنے دِل کا قصّہ آج عجیب
ہم جس کو پتّھر کہتے تھے ، کیسا دھڑکا آج عجیب

دن میں جانے کب گھُس آیا ، صحرا میرے کمرے میں
دفتر سے لوٹے تو دیکھا گھر کا نقشہ آج عجیب

ضبط نے شاید پہلو بدلا ، درد نے پھر سے کروٹ لی
رات ابھی باقی تھی آدھی ، سورج چمکا آج عجیب

برسوں بعد اُسے دیکھا تو حیرانی میں ڈوب گیا
آئینہ دیکھوں تو لگتا ہے اپنا چہرہ آج عجیب

وہ کہتی ہے آج ہمارے بچّوں کے فون آئیں گے
اپنے گھر میں لگتے ہیں نا تنہا تنہا آج عجیب

***

مجھے شاعری نہیں آتی


مجھے شاعری نہیں آتی
وہ شعر ہو یا فلسفہ
میں اپنی بات کیوں کہوں
جب میرے گرد پھیلے اس سمندر میں
کوئی لہر ایسی نہیں
جو ساحل کو چھُو سکے
میرا۔
اور اپنا بھرم رکھ سکے
جب فنا ہی میرا مقدّر ہے
تو میں کیوں بے کار ہی
ایک بے لنگر جہاز میں بیٹھا
انجانے جزیروں سے
سر ٹکراتاپھِروں

تم بڑے چالاک ہو
اورسفّاک بھی۔

تم چاہتے ہو
میں اپنے ہونٹوں کی سیپیاں ضرور کھولوں
اپنے سینے کے راز
ایک گٹھری میں باندھ کر
تمھاری چوکھٹ پر رکھ دوں
پھر چاہے مغربی ساحل پر
میرے لہو کی بوندیں
مونازائٹ۱؂ ریت میں تبدیل ہو جائیں
یا لہریں مجھے بہا لے جائیں
کسی وھیل مچھلی کے منہ میں...

تمھیں اس سے کیا غرض۔
(ٹھیک ہے...)
لیکن۔ میں ایک بد دماغ آدمی
میں نے تو اب سوچنا بھی بند کر دیا ہے
بات کرنا بھی ۔ اپنے آپ سے!!

٭٭٭

۱؂ Monazite

وقت کی ریل گاڑی

میں تجھے ڈھونڈنے نکلا گھر سے
اور اپنا ہی پتہ بھول گیا

اب نہ وہ تو ہے نہ میں
نہ وہ رستہ ہے نہ پیڑ
نہ وہ مندر ہے
نہ کُٹیا
نہ چراغ

اب نہ وہ تو ہے نہ میں
اور وہ لوگ۔ کہاں۔کیسے ہیں؟
میں جنھیں بھول کے خوش ہوں
جو مجھے یاد بھی آئیں

کیسی دیوار ہے یہ نیم فراموشی کی
آؤ دیوار گِرائیں
(اور اگر یہ نہ گِرے)
آؤ ڈھونڈھیں...
یہیں ہوں گے کہیں ریما، جوزف...
میں ترے کُرتے کا دامن تھاموں
آؤ ہم ریل بنائیں...
آؤ ہم ریل کو پیچھے لے جائیں!!

مجھے دُکھ ہوتا ہے

لفظ کی تذلیل پر
مجھے دُکھ ہوتا ہے
جب کوئی ایسی بات کہی جائے
جو اس قدر پوچ اور واہیات ہو
کہ سمجھ میں نہ آتے ہوئے بھی فوراً سمجھ میں آجائے
سچ یا جھُوٹ کی طرح
کسی برساتی نالے میں بہنے لگے
بہت سی مثالیں ہیں۔۔۔
(مُووی مثالیں)
جیسے کوئی مرد کسی عورت سے تسکین حاصل کر کے
اُسے دھکیل دے۔اور تکیے کے سہارے
نیم دراز ہو کر سگریٹ جلانے لگے
یا کوئی عورت کسی مرد کو...

اور کچن میں جا کر
آٹا گوندھنے لگے

میں چاہتا ہوں
ہم لفظ کو خوشبو کی طرح سُونگھیں
جیسے پرانے کپڑوں میں کسی رفیق بدن کی مہک
لفظ کو کھولیں
جیسے نومولود بچّہ آنکھیں کھولتا ہو
لفظ کو چُومیں
جیسے مدر ٹریسا کے ہاتھ

اپنے دونوں کان اور سر کو گھُما کر
لفظ کو دیکھیں
جیسے کوئی شعلہ
زمین، مرّیخ اور زہرہ کے درمیان
چکّر کاٹ رہا ہو
لفظ کو سوچیں
اپنے سر اور پاؤں کی خاک میں
لفظ کوسُنیں
سُرخ آنکھوں سے
خوردبین پر جھُک کر

کانچ کی سلائڈ میں...

میں چاہتا ہوں ہم لفظ کو اُنگلیوں میں تھام کر
(معنی کی نوک پر)
آہستہ سے گھمائیں
اس طرح کہ لفظ
(پہلے سمٹے...)
کائنات کا محور بنے
(پھر اس طرح پھیلے)
مجھے اور تمھیں۔
ہر شے کو ایک ہی دائرے میں محیط کر لے...

لیکن یہ کیسے ممکن ہے
جب فضا اتنی کثیف ہو
تو ایسا کریں
آؤ شہر کی سڑکیں دھوئیں
نئے جنگل اُگائیں
لفظ جس شاخ پر جس رنگ میں بیٹھا ہے
اُسے وہیں بیٹھا رہنے دیں!!

***

ایک دِن اور...

آنکھیں مَلتے
جب سورج نکلا ، ہم جاگے
اپنی سا نسوں کی دستک پر دروازہ کھولا
اپنے سائے کے پیچھے بھاگے
دِن بھر
میرے ساتھ رہی سڑکوں پر
میری تنہائی
رات ہوئی رستے میں
اِک ڈھابے پر ہم دونوں نے کھانا کھایا
دیر گئے گھر لوٹے
میں نے کچن میں جا کر
چائے بنائی
اُس نے سگریٹ سلگایا...

ساری رات ہی ہم دونوں نے
جاگ کے کاٹی
آج کا دِن بھی یوں ہی بِیتا
آج کی شب بھی
کوئی نہ آیا!!

***

بے موسم لوگ

ہم سے تو جو ہوتا ہے سب کرتے ہیں
ماں کی خدمت
باپ کی عزّت
بھائی بہنوں کے گھر آنا جانا
سب کے دُکھ سُکھ میں شامل رہنا
جُوتوں کو چمکا کر
سیدھی مانگ نکالے
دفتر جانا
صبح کو اپنے گھر سے نکل کر شام کو واپس آنا۔۔

ہم سے تو جو ہوتا ہے سب کرتے ہیں
جو بھی باتیں

ہم کو بزرگوں نے سمجھائیں
اُن کو گرہ میں باندھے
۔۔۔جیسے بڑوں سے جھک کر ملنا
بچّوں سے شفقت کا برتاؤ
...اور سڑک پر بائیں جانب چلنا
(لوگ اگر ہم پر ہنستے ہیں...)

اور زمانے نے ہم کو جو بھی سکھلایا
۔۔۔نیا چمن ہے
۔۔۔نئی بہاریں
وقت کے پھولوں کا نٹوں سے
اب اپنا دامن بھرتے ہیں
اب اپنے ہی بچّوں سے ڈرتے ہیں
ہم سے تو جو ہوتا ہے سب کرتے ہیں!!
***

رفتگاں



آج ان لوگوں کی بات کریں
جو چہرے آنکھوں میں معدوم ہوئے
وہ جامیؔ۱، نرملؔ۲ اور اریبؔ۳
وہ شاہدؔ۴ ، عاتقؔ۵ ، قدّوسؔ۶ ، زئیؔ۷
یا شاذؔ۸، عوضؔ۹ ، مخدومؔ۱۰ ہوئے
اب ان کو کہاں جا کر ڈھونڈیں
ان میلوں پھیلے ساحل پر
کِن موجوں کی زد میں آئے
کن لمحوں کا مقسوم ہوئے

وہ آج نہیں اس محفل میں
جو ہر محفل میں ہوتے تھے

کچھ دِن ہم نے تقریریں کیں
(میں نے بھی اِک نظم لکھی)
کچھ دِن اُن کے گھر کے لوگوں۔
اُن کے چاہنے والوں سے
اُن کی باتیں کیں
(یوں اپنے دِل سے گھاتیں کیں)

وہ آج نہیں
(کل ہم بھی کہاں...
یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں)

اَب اُن کا چہرہ آنکھوں کے آگے
اب اُن کی یاد بھی کَم کَم رہتی ہے

کیا اِک دِن یہ بھی کھو جائے گی
وہ خوشبو جو اِک بند کلی میں سوتی ہے
یہ بادل ۔ ہر وقت مری آنکھوں کے آگے
کیوں آتے جاتے رہتے ہیں
کیوں آنکھ مری نَم رہتی ہے!!


۱؂ خورشید احمد جامیؔ ۲؂ اوم پرکاش نرملؔ ۳؂ سلیمان اریب ۴؂ شاہد کبیر ۵؂ عاتق شاہ
۶؂ سیّد عبدالقدوس ۷؂ حسن یوسف زئی ۸؂ شاذؔ تمکنت ۹؂ عوض سعید ۱۰؂ مخدوم محی الدین

***

وقت

وہ چلتا رہا
اس کرۂ ارض کی گیند پر
ایک پاؤں رکھے
(دوسرا پاؤں اس کا خلا میں)
گیند آگے بڑھاتے ہوئے
(توازُن بھی قائم رہے...)

(قیامت کو ٹالے ہوئے...)
وہ چلتا رہا
(زیست اور مَوت کے دائرے کھینچتا...)
ایک ہی سمت میں
ایک رفتار سے

کسی بازی گر۔
ایک سرکس کے نَٹ کی طرح
چاند، سورج ،ستاروں کے گولے
کبھی دونوں ہاتھوں سے اُن کو اُچھالے
کبھی اپنے شانوں پہ۔۔۔
سر پر سنبھالے ہوئے

کبھی گونج میں تالیوں کی
. بے نیازانہ چلتا ہو
ہاتھ پتلون کی۔۔۔
دونوں جیبوں میں ڈالے ہوئے...!!

***

غزل

کبھی ہنس رہا تھا ، کبھی گا رہا تھا
مرا حوصلہ تھا ، جیے جا رہا تھا

یہ اچھّا ہوا کوئی ملنے نہ آیا
میں خود اپنے سائے سے کترا رہا تھا

وہ پہلی کرن سی مرے آ نسوؤں کی
مجھے اپنا اِک خواب یاد آرہا تھا

کئی عقل کی گتھّیاں تھیں مرا دِل
سمجھتا نہ تھا مجھ کو سمجھا رہا تھا

اُسی پر نئے پھول بھی کھِل رہے تھے
وہی شاخ ، مَیں جس پہ مُرجھا رہا تھا

وہ مجھ سے ملا شام کے وقت جب میں
پرندوں کے ہمراہ گھر جا رہا تھا
***

غزل

کیسی کالی کتنی لمبی رات ہے
سو رہا ہوں ، سر پہ ماں کا ہاتھ ہے

خواب کہتا ہے مری راتوں میں آ
اور جو بستر پہ میرے ساتھ ہے؟

سب یہی کہتے تھے.. اب تم بھی وہی..
تم بھی کہتے ہو ، تو اچھّی بات ہے

میں نے جو تدبیر کی ، اُلٹی ہوئی
لیکن اس میں آسماں کا ہاتھ ہے

بات پھر پہنچے گی ترک الترک تک
یہ جو ترکِ آرزو کی بات ہے

تجھ کو کھو کر ہی تو پایا ہے تجھے
یہ بھی میری جیت ، تیری مات ہے
٭٭٭

گجرات پر دو نظمیں


(۱)

ذرا سوچا نہیں تھا
ذرا سوچا نہیں تھا
کبھی دِن اس قدر تاریک ہوں گے
کہ راتیں سہم جائیں گی

زمیں پر گھور اندھیرا
آسماں پر سُرخ بادل
اُدھر ان کی سیہ بارش
اِدھر میری یہ ویراں خشک آنکھیں
اور ان آنکھوں کے دو ٹیومر
اور ان میں ایک ہی منظر
جو اخباروں میں ہر صبح
اِک نئی سُرخی میں چھپتا ہے

کبھی یہ سوچتا ہوں
(میں اِک بدبخت انساں)
کاش میں کچھ اور ہوتا
بس اِک چوہا ۔اور اپنے بِل میں رہتا...!!

****



(۲)



میرا کوئی بھائی نہیں ہے

وہ کہتے ہیں
میرا کوئی دیس نہیں ہے

اور یہ سب تم سُن لیتے ہو؟
ایسا تھا تو ساتھ مرے
ایک ہی مکتب میں کیوں بیٹھے
ایک ہی گیند اور اِک بلّے سے برسوں کھیلے
ایک ہی بارش میں کیوں بھیگے؟
اور وہ میری رادھا بِٹیا
جو تم دونوں کے چرنوں کو چھُونے سے پہلے
میرے چرن چھوتی ہے
کیا وہ میری جائی نہیں ہے

وہ کہتے ہیں
میرا کوئی دیس نہیں ہے
میرا کوئی بھائی نہیں ہے

اور یہ سب تم سُن لیتے ہو...!!

***

دعا

خدائے برتر ! تِری اطاعت میں مجھ کو ایسا سُرور آئے
نہ بندگی میں ہو شَر اَنا کا ، نہ میرے دِل میں غرور آئے

میں تجھ سے مانگوں ، مجھے عطا کردے اپنے محبوب کی محبّت
نہ جاہ و زَر کی ہَوس ، نہ دِل میں خیالِ حوُر و قصور آئے

مِرے لبوں پر ہو تیرا کلمہ ، مِری نگاہوں میں تیرا جلوہ
نہ میرے ہمراہ آئیں موسیٰ ، نہ بیچ میں کوہِ طوُر آئے

یہ تیری جلوت ، یہ میری خلوت ، یہاں پہ کیوں ہو گزر کسی کا
میں تجھ کو دیکھوں‘ میں تجھ کو سوچوں ، نہ کوئی نزدیک و دُور آئے

مرے خدا بے گناہ ہیں جو وہ تیری رحمت کے مستحق ہیں
مگر وہ موذی جو ظلم کرتے ہیں قہر اُن پر ضرور آئے

جو پھول سی عصمتیں لُٹی ہیں عطا ہو خلدِ بریں سے اُن کو
اِک ایسی چادر کلی کی دوشیزگی کا جس میں غرور آئے

مِرے خدا ! یہ مِری نمازیں مِری دُعائیں قبول کر لے
میں اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیروں تو میرے چہرے پہ نوُر آئے


***

یوں قصّہ آگے بڑھتا ہے

نفرت کا پھل کالا
مغز کسیلا
بیج بہت کڑوا ہوتا ہے

ہو گا ۔ لیکن مجھ کو تو یہ پھل اچھّا لگتا ہے
آپ اس پر اپنے دُشمن کے لہو کا اِک قطرہ چھڑکیں
اب چکھّیں...
دیکھیں ۔ کیسا نشّہ ہوتا ہے

پھر آنکھ مِری کھُلتی ہے
وہ اِک پَل تھا ، ایک برس یا ایک صدی
یہ راز کہاں کھُلتا ہے

اب میرے دشمن کے ہاتھوں میں وہی پھل
اب دہشت کے عفریت کا سایہ مجھ پر جھُکتا ہے

یوں قصّہ آگے بڑھتا ہے...!!
***

غزل

کبھی ذرّہ ، کبھی صحرا ہوں مَیں
اپنی ہی آنکھ کا دھوکا ہوں مَیں
حیرتی ہوں ترے آئینے کا
لوگ کہتے ہیں کہ تجھ سا ہوں مَیں
میرے اندر مِرے باہر بھی تُو
کیا ترا آئینہ خانہ ہوں مَیں
دیکھ کیا حال ہوا ہے میرا
کھیل تیرا ہے ، تماشا ہوں مَیں
اپنی آنکھوں میں چھپا لے مجھ کو
شب کا ٹوٹا ہوا تارا ہوں مَیں
***

تمنّا کے اِس رنگ میں

مِری منزلیں
تمنّا کے بے سمت صحرا میں
اِک گمشدہ کارواں کے
نقوشِ قدم ہیں

مِرا جسم سایہ ہے
وہ لوگ بھی
خیالی صنم ہیں
جنھیں چھُو کے دیکھا ہے میں نے
مِرے ہم نفس بھی
جن کی چاہت کی مِٹّی کا
ماتھے پہ قشقہ لگائے
میں ہر صبح گھر سے نکلتا ہوں
ایک نانِ جویں کے لیے۔۔۔

خدایا۔۔۔
تِری اس کتابِ معانی کا میں
بس اِک حرفِ نا معتبر ہی سہی
مگر اپنے ہاتھوں سے تُو نے لکھا ہے مجھے
مِری خاک میں۔۔۔
تمنّا کا اِک عالمِ رنگ و بو بھی تو ہے
تمنّا کے اس رنگ میں مَیں ہوں ، تُو بھی تو ہے
***

آج صبح ہی سے...

آج میں صبح ہی سے
ساری دُنیا سے ناراض ہوں
سوچتا ہوں کہ یہ زندگی
کتنی بے مایہ ۔ بے فیض ہے

شام کو گھر کی دہلیز پر پاؤں رکھتے ہی
آواز دیتا ہوں اُس کو
وہ کمرے میں اپنی نمازوں، دعاؤں میں مصروف ہے
اب میں اُس سے خفا۔
(تو کیا میں خدا سے بھی لڑنے لگا ہوں)

وہ جب چائے لاتی ہے ، مجھ کو مناتی ہے ایسے
کہ بادل سے چھٹتے ہیں، ہم ہنسنے لگتے ہیں
تیرا کرم ہے خدایا کہ ہم دونوں زندہ ہیں اب تک
یہ تیرا کرم ہے کہ میں صبح سے
جھُوٹ کہتا رہا۔
جھُوٹ جیتا رہا ہوں!!

***

لفظوں کی بارش !!


عجب زندگی ہے
مِرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں
میرے بالوں میں بس۔۔۔
کاغذی ریت ہے
مجھے تو ہنسی آ رہی ہے۔تمھیں بھی
وہ دِن یاد ہیں نا؟
ہم ذرا آنکھ اُٹھاتے تو پلکوں کوَمس کرتیں مہتاب کی نرم کرنیں
شفق ، سبز پتےّ،کئی رنگ کی تتلیاں
کبھی اپنے ہاتھوں سے ہم
سر کو چھُوتے۔سیہ، سُرمئی ، بھُورے بادل ہٹاتے
کوئلیں کوکتیں
اور لفظوں کی بارش میں ہم
نہا جاتے تھے
تو کیا وقت کے ساتھ
لفظ بھی رُوٹھ جاتے ہیں
زرد پتّوں میں ڈھلتے ہیں
معنی کے موسم بدل جاتے ہیں
یہ سچ ہے تو پھر
یہ موسم بھی بدلے گا اِک دِن
ہم تم
اور وہ لوگ۔ جو ہم سے پہلے بہت پہلے بوڑھے ہوئے
وہ بچےّ بھی
جو پالنے میں ابھی آنکھ پر ہاتھ رکھّے ہوئے سو رہے ہیں
(خزاں کا کوئی رنگ ابھی جن کی حیراں نگاہوں نے دیکھا نہیں ہے)
خداوند کی رحمتوں کے قلم سے
آسمانوں پہ لکھّا ہوا ابر برسے گا جب
تو لفظوں کی بارش میں
ہم سب نہا جائیں گے
٭٭٭

غزل



ہمیں دُنیا سے کچھ لینا نہیں تھا
ہمارے ہاتھ میں کاسہ نہیں تھا

سنا تھا تُو حسیں ہے ، بے وفا بھی
تجھے اے زندگی دیکھا نہیں تھا

یہی انعام ۔ اُس کے کام آئیں
نہ لے احساں اگر لیتا نہیں تھا

نئے کچھ خواب لے کر رات آئی
ابھی بستر پہ میں لیٹا نہیں تھا

مِرے بچّوں کے اپنے اپنے آنگن
مِرے گھر میں کوئی رہتا نہیں تھا
***

غزل

اس تیری زمیں سے آسماں سے
جی اُوب گیا ۔ چلیں یہاں سے

بازار گئے تھے ... کس دُکاں سے؟
یہ جنسِ وفا ملی کہاں سے

بیٹھے ہیں ہم ، اور اُٹھ گئے ہیں
کچھ لوگ ہمارے درمیاں سے

اِن پر ہیں نشان اُنگلیوں کے
یہ پھول تمھیں ملے کہاں سے

اے دِل ! ذرا ہوشیار رہنا
اس طرزِ تپاکِ دوستاں سے

دُنیا سے کوئی غرض نہ دیں سے
یہ آرزو لائے ہو کہاں سے

یہ دھُوپ یہ چھاؤں سب تمھاری؟
کہتا ہے چلو ، اُٹھو یہاں سے
***

غزل

کھویا ہے تو کیا کھویا ، پایا ہے تو کیا ہم نے
سب کھیل تماشا ہے ، سب دیکھ لیا ہم نے
کہتا تھا فرشتہ ہو ، انسان نہیں ہو تم
افسانہ سناتا تھا ، افسانہ سُنا ہم نے
اِک خواب ۔ لہو دے کر آنکھوں میں اُسے روکا
اِک رات کو پلکوں سے زنجیر کیا ہم نے
دیکھیں تو سہی ہم بھی ، اے دِل ابھی چلتے ہیں
انجام جو ہو سو ہو ، اب سوچ لیا ہم نے
بُجھتی ہوئی آنکھوں میں لفظوں کا دھُواں کیا تھا
کچھ تم کو نظر آیا ؟ کچھ تم سے کہا ہم نے؟
ماں کی طرح پھر اُس نے چومی مِری پیشانی
جب رات کے سینے پر سر اپنا رکھا ہم نے

***

غزل

ملو گے تو پھر بات ہو جائے گی
مگر جیت سے مات ہو جائے گی
بلاتی ہے مجھ کو وہی شام پھر
مگر راہ میں رات ہو جائے گی
تم آئے کہ بادل اُمڈنے لگے
تم اُٹھّے تو برسات ہو جائے گی
چلو ، ہاتھ میں ہاتھ لے بھی لیا
تو اگلی سی ہر بات ہو جائے گی؟
فقیروں کا کیا ۔ کوئی چوکھٹ سہی
کہیں بھی بسر رات ہو جائے گی

***

عراق

ریگستان کی تپتی ہوئی دھُوپ میں
گِدھوں کے منحوس چہروں سے
عقاب کا میک اَپ پگھل رہا ہے
بم، راکٹ
دھماکے
بُریدہ ہاتھ پاؤں
پگ مارک ۔ انسانی درندوں کے
جوان لاشیں
ضعیف کاندھے
پاؤں کے چھالے
پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے
قبریں۔
ہزاروں ۔ لاکھوں
تہہ خانوں کی صورت
کئی منزلہ قبریں
ٹینکوں پر گشت لگاتی۔ اِدھر اُدھر۔
نظریں دوڑاتی ہوئی قبریں
بچّوں کی ہنسی
چوڑیوں کے ٹکڑے
توَے پر پڑی ہوئی روٹی
چولہے کی لکڑیاں۔ سب کچھ
اپنے شکم میں سمیٹتی قبریں۔

اور ان سب سے دُور
کچھ اور قبریں۔
آنے والی نسلوں کے انتظار میں منہ کھولے
آسمان کو تکتی ہوئی
زمین کی جڑوں میں پھیلتی ہوئی...!!
***

غزل


ہم ترا سایہ تھے ، سایہ ہو کے
پھر چلے آئے ہیں تجھ کو کھو کے

درد کی فصل ہمیں یاد رہی
بیج ہم بھول گئے تھے بو کے

آنکھ نے دیکھا مگر کیا دیکھا
عقل نے اور بھی کھائے دھوکے

ایک طوفان کی آمد آمد
ایک آ نسو کوئی روکے ... روکے

سب کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں تو، ہم
کوئی اتنا نہیں اُس کو ٹوکے

تیرا عاشق تھا تو لے یہ تابوت
آخری کیل بھی تُو ہی ٹھوکے

دیکھو مصحفؔ کو جگاؤ نہ اگر...
ابھی سوئے ہیں بہت رو رو کے


***

غزل

سر پر کلاہ ، تن پر خلعت کہاں ملے گی
وہ مل گیا تو غم کی دولت کہاں ملے گی

یہ آبدار موتی ہم پر تو مت لُٹاؤ
ہم سے اِن آ نسوؤں کی قیمت کہاں ملے گی

وہ خال و خد بتاؤ پانی پہ کیوں لکھے تھے
اب ڈھونڈھتے ہو اس کی صورت کہاں ملے گی

میری اگر سنو تو اِک بار خود سے مل لو
وہ آگیا تو تم کو فرصت کہاں ملے گی

دفتر سے تھک کے ماں کے قدموں میں لیٹتے تھے
وہ دِن کہاں گئے وہ جنّت کہاں ملے گی

اُس دیر آشنا سے پوچھے تو کوئی مصحفؔ
آئینہ مل بھی جائے ، حیرت کہاں ملے گی

***

رات کی بات



رات نے کہا مجھ سے
آؤ خواب اِک دیکھیں
زمہریر کا موسم
برف شاہراہوں پر
برف ہے چناروں پر
ریزہ ریزہ گِرتے ہیں
برف کی طرح لمحے
تمکنت سے بیٹھی ہے
گلیشیر کی چادر
زیب تن کیے دھرتی
آسماں کے سر پر ہے
اِک سمور کی ٹوپی

گلیشیر بہتا ہے
جیسے سُست رَو دریا
بہتے بہتے سو جائے
وہ سمور کی ٹوپی

آسمان سے اُتری
دائیں گال پر میرے
جیسے گھاؤ ہو کوئی
ڈولتی ہے پانی میں
جیسے ناؤ ہو کوئی
آؤ ناؤ میں بیٹھیں
رات نے کہا مجھ سے
آؤ خواب اِک دیکھیں

کچھ تو برف پگھلی ہے
آسماں کے روزن سے
اِک ستارہ چمکا ہے
میری بند پلکوں پر
اپنی اِک کرن لے کر
رات لوٹ آئی ہے،
میں نے اس کے بالوں میں
اُنگلیوں کو پھیرا ہے
میرے زرد گالوں پر
اُس کا سرد بوسہ ہے
***

وائرس



عجیب بات ہے
وہ بات میں نے جو کہی نہیں
وہ مجھ کو یاد بھی نہیں۔۔
میں مانتا ہوں میرے لب نہیں کھُلے
مگر وہ بات جو ابھی ہَوا میں بہہ رہی تھی۔ اور اب
گھاس، پھول، پتھّروں پہ نقش ہے
وہ حرفِ بے صدا جو ایک چیخ کی طرح
فضا میں تھم گیا
مرے لہو میں جم گیا
وہ مجھ کو یاد ہی نہیں
عجیب بات ہے
یہ میرے دِل کا وائرس ہے
یا اِک ایسا حادثہ
(میں جس کو بھولتا گیا...)
میں نے اپنے ذہن میں جسے
سیو* ہی نہیں کیا!!

***
* (Save)


غزل

چشم و گوش پہ پہرے ہیں
اندھے ہیں سب ، بہرے ہیں

دُکھ کی آنکھیں نیلی ہیں
دُکھ کے بال سنہرے ہیں

نقش ابھی ہے خام ترا
رنگ بھی تیرے گہرے ہیں

اُس کا کوئی نام نہیں
بس چہرے ہی چہرے ہیں

معنی پر تو قید نہیں
لفظوں پر کیوں پہرے ہیں

اشکوں کی بارش ہو گی
دُکھ کے بادل گہرے ہیں

گھر ۔ کس کا گھر ؟ کیسا گھر؟
ہم ہوٹل میں ٹھہرے ہیں


***

غزل

(مغنی تبسّمؔ کے نام)


لبِ ساحل ، تہہِ دریا دیکھا
ایک ہی نقشِ کفِ پا دیکھا

میری آنکھوں کے شجر سوکھ گئے
رات کیا خواب میں صحرا دیکھا

آنکھ حیران ۔ یہ رقصِ مہہ و مہر
گھر سے نکلے تو تماشا دیکھا

گردِ آئینہ خد و خالِ خیال
تو کہاں تھا کوئی تجھ سا دیکھا،

پھر تری یاد نہ آئی مجھ کو
میں تجھے بھول گیا تھا ... دیکھا

میں نے ہر حرف کو ٹھوکا پیٹا
میں نے ہر لفظ کو کھولا ، دیکھا

ایک ہاتھ آنکھ کی دیوار کے پاس
دِل کی زنجیر سےِلپٹا دیکھا

کس سے ملنے کے لیے آیا تھا
در و دیوار کا چہرہ دیکھا

ایک تاریک کنواں تھا دِل کا
مصحفؔ اُس میں کبھی جھانکا ۔ دیکھا ؟


***

بند دروازے



تم سے کتنی بار کہا ہے
سچ مت بولو
(جھوٹ لگے گا)
اپنے اندر اُٹھتے طوفاں کو دباؤ

ہوش میں آؤ۔ہم کو
وقت کے دھارے پر بہنا ہے
ہم کو ان ہی لوگوں میں
اِس دُنیا میں رہنا ہے

لو۔ پھر ہم سے رُوٹھ گئے
پھر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئے
اچھّا... بابا... سچ ہی بولو
دروازہ تو کھولو...!!

***

غزل

ہم تھے ، کسی کا دھیان تھا ، وہ بھی نہیں رہا
اِک ربطِ جسم و جان تھا وہ بھی نہیں رہا

جھگڑا تھا میرا جس سے وہ دُنیا کدھر گئی
اِک شخص درمیان تھا وہ بھی نہیں رہا

مثلِ چراغ تیرگیِ جسم و جاں میں دِل
اِک شہرِ بے نشان تھا وہ بھی نہیں رہا

ا ینٹیں بچھی تھیں جس میں‘ وہ اِک تنگ سی گلی
اس میں مِرا مکان تھا وہ بھی نہیں رہا

دُنیا مِری نہیں نہ سہی ، تم تو ساتھ ہو
کیا کیا ہمیں گمان تھا وہ بھی نہیں رہا

نقطہ بنی ، نگاہ سے اوجھل ہوئی زمیں
سر پر اِک آسمان تھا وہ بھی نہیں رہا

مصحفؔ تمھارا نام یہیں تھا... اور اُس پہ ہاں ...
اِک سرخ سا نشان تھا وہ بھی نہیں رہا
***

غزل

اپنے غم کی حد میں رہنا ، کیوں اس سے بے کار ملیں
ہم نے بھی اب سوچ لیا ہے نومیدانہ زیست کریں
رہتے تھے اس شہر میں ہم بھی، لیکن ہم کو جانے کون
اپنا نام تو کب کا بھولے ، اب اس کا بھی نام نہ لیں
اِن خوابوں کا سونا چاندی تیری کھڑکی کی سِل پر
یہ آ نسو ، یہ موتی ، تیرے تکیے کے نیچے رکھ دیں
کیا یہ چہرہ یاد ہے تم کو آنکھ اُٹھا کر دیکھو تو
اچھّا ، ہم کو ڈھونڈو اپنے البم کی تصویروں میں
مصحفؔ تم نے شعر سُنا کر بہت سمئے برباد کیا
آؤ میرؔ کے پاؤں دابیں ، میرا جیؔ کے پاس چلیں
***

غزل

بدن کی اندھیری گُپھا میں نہیں
زمیں پر نہیں ، میں خلا میں نہیں

وہ مُٹھی نہ کھولے تو میں کیا کروں
ابھی میری خوشبُو ہَوا میں نہیں

اُسی رنگ کا پھول اس نے چُنا
جو اِک رنگ میری وفا میں نہیں

شکستہ پَروں کو سمیٹو ذرا
زمیں پر رہو بس خلا میں نہیں

یہ اطلس یہ کمخواب رہنے بھی دو
یہ پیوند میری قبا میں نہیں

مِرا کھیل ہی سارا اُلٹا ہوا
اثر شعر میں ہے دُعا میں نہیں

سُنیں شعر کس سے ، سُنائیں کسے
وہ کیفے نہیں اب وہ شامیں نہیں

***

ایک نظم ۔۔ اپنی پوتی کے لیے



میری ننّھی جوہیؔ کو
پہلے پہل جب
پاؤں پاؤں چلنا آیا
ایسے اِترا اِترا کے پاؤں بڑھاتی
مُڑ مُڑ کر کہتی ’’ددّا ... دا...دا...‘‘
ایسے خوش ہوتی
جیسے جہاں اُس کے قدموں کے نشاں پڑ جائیں گے
وہ دھرتی کا ٹکڑا اس کی اقلیم ہے
(اور جو دھرتی بچ جائے گی
سب اُس کے ممّی ،پاپا کی...)

رات آئی تو میری گڑیا ہاتھ ہلاتی
چھم ... چھم... اِک پاؤں میں پایل چھنکاتی
گرتی، اُٹھتی، ڈگمگ چلتی
اپنے کمرے سے

میرے بستر تک آئی
میرے خمِ بازُو میں سوئی
میری آنکھوں پر ننھّے ننھّے ہاتھوں کو رکھ کر
اُس نے جو بھی خواب دِکھائے
میں نے اُن ہی خوابوں کو دیکھا
(صدیاں گزریں۔
بھول گیا تھا...)
اُس کی انگلی تھام کے
میں نے پھر سے چلنا سیکھا!!

***

غزل

گہری نیلی جھیل بنائیں
آ نسو کی دیوار اُٹھائیں

ایسا تو بے مہر نہ ہو گا
اُس سے مل کر دیکھیں ، جائیں

میں نے اُس کے دھیان کی چادر
وقت نے اوڑھیں چار دِشائیں

اب اُٹھّیں ، تنہائی بولی:
دس بجتے ہیں دفتر جائیں

رونے اور ہنسنے سے پہلے
اُس نے دیکھا دائیں بائیں

لب پتھّر ہیں اور لہو میں
لفظوں کی یہ سائیں سائیں

آپ کہیں تو شاید سُن لے
آپ ہی اب اُس کو سمجھائیں

مصحفؔ ان یادوں سے کہہ دو
اور کوئی گھر دیکھیں ۔ جائیں

***

خدا نے چاہا...

خدا نے چاہا تو جو بھی ہو گا وہ ٹھیک ہو گا
اگر اسی میں رضا ہے اُس کی
اگر یہی اُس کی مصلحت ہے
اگر وہ یہ چاہتا ہے میں خواب ہی نہ دیکھوں
کبھی نہ سوؤں۔
یہ چند سا نسیں میں جاگ کر ہی گزار لوں گا
(یہ سچ ہے
خوابوں سے کیا ملا ہے مجھے ابھی تک)

خدا نے چاہا مِری دُعاؤں کی صبح اِک دِن طلوع ہو گی
یہ رات آخر پَروں کو اپنے سمیٹ لے گی
یہ چند سا نسیں میں جاگ کر ہی گزار لوں گا!!


***

اور اِک تم ہو...

سچ کہتے ہو
لیکن سچ کیوں کہتے ہو...؟

جب سچ کہنے سے
سر کٹتا ہے
ہاتھ قلم ہوتے ہیں
لاکھوں لوگوں کی جانیں جاتی ہیں

دیکھو ۔ ہم تم کو دَھن دیتے ہیں
ایسے لوگوں سے ملواتے ہیں
جن کے اشارے پر دُنیا چلتی ہے
وہ مجبوبائیں
جن کے خمِ ابرو کی اِک ہلکی جنبش سے

تاریخ اپنے اوراق اُلٹ دیتی ہے
آؤ ہماری میز پہ بیٹھو
دیکھو ۔ ہم نے تمھاری خاطر
کیسی کیسی خوش رنگ شرابیں منگوائی ہیں

اور اِک تم ہو...
اچھّا اب یہ باتیں چھوڑو
آؤ ہماری میز پہ بیٹھو...!!

***

مجھے گھر یاد آتا ہے

پہلے گھر ہوتے تھے

اب تو ٹی۔ وی، گیس کے چولہے ، ریفریجریٹر
قالینوں کے بیچ میں ہی رہنا ہے
یہ بھی ٹھیک ہے۔ دُنیا بدلی
ہم بھی بدلیں۔
کبھی کبھی تو ہم کو اپنا یہ بدلا بدلا رُوپ بھی اچھّا لگتا ہے
جب کچھ دِن کو (سسرال سے) دیباؔ ، اُس کا دُولہا
پھر جاویؔ ، شیریںؔ، اُن کے بچےّ آ جاتے ہیں
(بچےّ ، اُف یہ بچےّ کتنا شور مچاتے ہیں)
وہ کہتی ہے ’’ جُنوّ۔ اب یہ پیانو بند کرو
نِشّو یہ باجا مجھ کو دو
’’میرا سر پھٹتا ہے...‘‘
کبھی کبھی تو ہمیں سمے کا یہ بہروپ بھی اچھّا لگتا ہے

پھر دیباؔ کے جانے کے دِن آتے ہیں
لو۔ جاویؔ کی چھّٹی ختم ہوئی
وہ اپنے شہر چلا جاتا ہے

پھر ہم تنہا ہو جاتے ہیں
پھر ہم کو اپنا وہی پرانا ۔ بہت پرانا آنگن
وہ پیڑوں اور انسانوں سے بھرا بھرا آنگن...
یاد آتا ہے
وہ دیوار و دَر ہم جن میں رہتے تھے
ہم جس کو گھر کہتے تھے...!!


۱؂ میراجیؔ مرحوم کی ایک نظم کے عنوان سے ماخوذ ۔

غزل

اشکوں سے بہ رنگِ آب ہم نے
دریا کو لکھا سراب ہم نے

ہم خود سے سوال کر رہے تھے
لو ۔ ڈھونڈ لیا جواب ہم نے

دیکھا نہیں اس کو کتنے دِن سے
انگلی پہ کیا حساب ہم نے

اب اپنی نگاہ درمیاں ہے
دیکھا تجھے بے نقاب ہم نے

کیا کیا نہ ہمارے جی میں آئی
کچھ تم کو دِیا جواب ہم نے

جگنو بھی نہ دے سکے نہ دے وہ
مانگا نہیں آفتاب ہم نے

اِک غم ہے ۔ اُسے بھی بھول جائیں
پی رکھّی ہے کیا شراب ہم نے

ایسے کہ سنو تو ہنس پڑو تم
دیکھے ہیں عجیب خواب ہم نے

****

غزل

آسمانوں میں سدا گھوما کریں
اِک ستارہ دُور سے دیکھا کریں

ہم نے پوچھا اِن دُکھوں کا کیا علاج
ہنس کے بولے خواب کم دیکھا کریں

ہاں وہ پتھّر ہی سہی ، تم کون ہو؟
ہم جِسے چاہیں ، جِسے سجدہ کریں

دوش پر سر پاؤں کے نیچے زمیں
آئینے کو طاق پر رکھّا کریں

ہم نے اپنے دِل کو پتھّر کر لیا
آپ بھی لفظوں سے کم کھیلا کریں

بے وفا ہے وہ تو اُس دَر پہ نہ جائیں
آپ اِدھر آئیں ، یہاں بیٹھا کریں

یاد بولی ۔ تم کہو تو رات کو
پائینتی ہم آ کے سوجایا کریں

مصحفؔ اُس کا دِل دُکھا کر کیا ملا
آپ سچ بولیں ۔ مگر سوچا کریں
٭٭٭