سچ کا پیالہ

ہم نے سچ کو
اتنا توڑا
اتنا کھینچا
اپنی اُنگلی میں پہنا
(جیسے نگیں ہو)
بیوی کے جوُڑے میں باندھا
(پھول ہو کوئی...)

کھَٹ کھَٹ کھَٹ کھَٹ
کھَٹ کھَٹ کھَٹ
ٹِک ٹِک ٹِک
ہم نے لمحوں ۔ صدیوں
جھوٹ کے آہن اوزاروں سے
سچ کو اتنا پیٹا
(شاہوں کی خلعت کے شایاں)
چاندی
اور سونے کے تار بنے
پیلے پھول
رو پہلی کِرنیں
دن اور رات بنے
اِک دِن اپنے گھر سے باہر نکلے تو دیکھا۔۔۔
ہر نکّڑ پر
بس کے کیو میں
رِشی ، مُنی، اوتار کھڑے
سچ کا پیالہ ہاتھ میں تھامے
ریستورانوں۔کافی ہاؤس
ہر پب۱ میں سقراط ملے!!

****
۱ Pub