غزل

کھڑکی کے پردوں پر کیسا سایہ ہے
دروازہ تو کھولو کوئی آیا ہے

میری خاموشی نے خواب عجب دیکھا
لب پر تیرا نام ہے اور تُو آیا ہے

ہم سے تو بے کار ہی نالاں رہتا تھا
غیر سے مِل کے اب کیسے پچھتایا ہے

سورج ہو گا ۔ ہو گا ، اس کو کیا دیکھوں
سوچوں میرا چاند ابھی گہنایا ہے

ذہن کی دَوڑ بہت ہو گی ، سو دو سو گز
آنکھ نے جو بھی دیکھا تیری مایا ہے

اِک بے نام سفر ہے نوری سالوں کا
کس نے تجھ کو دیکھا ،کس نے پایا ہے

سورج ڈوبا ، ہم دفتر سے گھر لوٹے
کُتّا منہ میں گیند دبا کر لایا ہے

اُس کے جسم کے جنگل میں آرام کریں
کیسا میٹھا پانی ، ٹھنڈا سایہ ہے

دیکھیں اُس کا غم ہے یا پھر اور کوئی
جانے اتنی رات گئے کون آیا ہے

***