غزل

لمحۂ وصلِ آفتاب کہاں
قطرۂ شبنمِ خراب کہاں

عمر کی رات جاگ کر کاٹی
میری آنکھوں میں کوئی خواب کہاں

میرے سر پر بھی اِک ٹپکتی چھت
تیری رحمت ہے یہ ، عذاب کہاں

یہ زمیں گھومتی ہے جانے کیوں
جا رہا ہے وہ ماہتاب کہاں

ان کھلونوں کے پاس رکھّی تھی
کھو گئی عمر کی کتاب کہاں

گھر ہے رُسوائیوں کا یہ مصحفؔ
آگئے آپ اِدھر جناب کہاں
****