غزل

جانے کس لیے رُوٹھی ایسے زندگی ہم سے
نام تک نہیں پوچھا بات بھی نہ کی ہم سے

دیکھو ، وقت کی آہٹ تیز ہوتی جاتی ہے
جو سوال باقی ہیں پوچھ لو ابھی ہم سے

کوئی غم اِدھر آئے، اس کو گھورتی کیوں ہے
اور چاہتی کیا ہے اب تری خوشی ہم سے

ایک بھولی بسری یاد ، آج یاد کیوں آئی
کیوں کسی کے ملنے کی آرزو ملی ہم سے

اُس کی ایک انگلی پر گھومتی رہی دُنیا
چاند کی طرح ہر شے دُور ہو گئی ہم سے
***