غزل

اَگلے وقتوں ، گئے زمانوں میں
ڈھونڈیے مجھ کو داستانوں میں

یہ قفس کس نے کر دیے تعمیر
اِک زمیں پر ، کچھ آسمانوں میں

پی کے میرا لہو بھی جی نہ بھرا
ذائقے تھے عجب زبانوں میں

آج اُس سے ملے تو لوٹ آئے
بھولے بسرے ہوئے زمانوں میں

لب چکیدہ خموشیاں اُس کی
جانے کیا کہہ رہی ہیں کانوں میں

پھول جنگل کے مجھ کو بھاتے ہیں
کام کرتا ہوں کارخانوں میں

اجنبی خواہشیں نظر آئیں
کل تری آنکھ کے مکانوں میں

ایک بندوق کے نشانے پر
میں پہاڑوں پہ ، میں ڈھلانوں میں

آئے ہو اِس گلی میں اب مصحفؔ
قفل جب پڑ گئے مکانوں میں

***