غزل

اپنے غم کی حد میں رہنا ، کیوں اس سے بے کار ملیں
ہم نے بھی اب سوچ لیا ہے نومیدانہ زیست کریں
رہتے تھے اس شہر میں ہم بھی، لیکن ہم کو جانے کون
اپنا نام تو کب کا بھولے ، اب اس کا بھی نام نہ لیں
اِن خوابوں کا سونا چاندی تیری کھڑکی کی سِل پر
یہ آ نسو ، یہ موتی ، تیرے تکیے کے نیچے رکھ دیں
کیا یہ چہرہ یاد ہے تم کو آنکھ اُٹھا کر دیکھو تو
اچھّا ، ہم کو ڈھونڈو اپنے البم کی تصویروں میں
مصحفؔ تم نے شعر سُنا کر بہت سمئے برباد کیا
آؤ میرؔ کے پاؤں دابیں ، میرا جیؔ کے پاس چلیں
***