غزل

ملو گے تو پھر بات ہو جائے گی
مگر جیت سے مات ہو جائے گی
بلاتی ہے مجھ کو وہی شام پھر
مگر راہ میں رات ہو جائے گی
تم آئے کہ بادل اُمڈنے لگے
تم اُٹھّے تو برسات ہو جائے گی
چلو ، ہاتھ میں ہاتھ لے بھی لیا
تو اگلی سی ہر بات ہو جائے گی؟
فقیروں کا کیا ۔ کوئی چوکھٹ سہی
کہیں بھی بسر رات ہو جائے گی

***