غزل

اشک پلکوں کے کنارے تیرے
آسماں ، چاند ، ستارے تیرے

چارسُو میں نے بِچھا دِیں آنکھیں
ہر طرف تُو تھی ، نظارے تیرے

کیسی دیوار تھی خاموشی کی
کچھ تو تھا ، بیچ ہمارے تیرے

کیا ہوا تیرا وہ پندارِ اَنا
کیا ہوئے سارے غبارے تیرے

دیر سے آئی ذرا وصل کی شب
سو گئے ہجر کے مارے تیرے

رات دیتی رہی در پر دستک
منتظر صبح تھی دُوارے تیرے
**