غزل

آسمانوں میں سدا گھوما کریں
اِک ستارہ دُور سے دیکھا کریں

ہم نے پوچھا اِن دُکھوں کا کیا علاج
ہنس کے بولے خواب کم دیکھا کریں

ہاں وہ پتھّر ہی سہی ، تم کون ہو؟
ہم جِسے چاہیں ، جِسے سجدہ کریں

دوش پر سر پاؤں کے نیچے زمیں
آئینے کو طاق پر رکھّا کریں

ہم نے اپنے دِل کو پتھّر کر لیا
آپ بھی لفظوں سے کم کھیلا کریں

بے وفا ہے وہ تو اُس دَر پہ نہ جائیں
آپ اِدھر آئیں ، یہاں بیٹھا کریں

یاد بولی ۔ تم کہو تو رات کو
پائینتی ہم آ کے سوجایا کریں

مصحفؔ اُس کا دِل دُکھا کر کیا ملا
آپ سچ بولیں ۔ مگر سوچا کریں
٭٭٭