غزل

چہرے پر وحشت سی ہے
بالوں میں بھی مٹی ہے

میں نے پھر اپنی صورت
پانی میں کیوں دیکھی ہے

اِک کُٹیا میں بیٹھا ہوں
اِک پربت کی چوٹی ہے

سوچو تو دَم گھُٹتا ہے
دُنیا کتنی چھوٹی ہے

جیون ہے یا پُرکھوں کے
پاپوں کی اِک گٹھری ہے

تم ہی اس کو سمجھاؤ
تم نے دُنیا دیکھی ہے

دِل کے ساحل پر اُتروں
جانے کیسی بستی ہے

اس کو سونا کہتے ہو
یہ تو پیلی مٹّی ہے

نام اقبالؔ کا دیکھو تو
مصحفؔ ہے ... توصیفیؔ ہے ...


***