غزل

ایک غم ہے ، اُسے اپنا جانیں
ہم کسی اور کو کیا پہچانیں

مجھ کو برباد کر ، آباد بھی کر
جھوٹ اس طرح سے کہہ ، سچ جانیں

خواب دیکھیں نئےسر سے تیرے
پھر ترے دھیان کی چادر تانیں

دِل کے بازار کا نقشہ تھا عجیب
چاند نکلا تو کھُلیں دوکانیں

چھیڑتے ہیں اُسے خود ہی مصحفؔ
اُس کی باتوں کا بُرا بھی مانیں
***