تمنّا کے اِس رنگ میں

مِری منزلیں
تمنّا کے بے سمت صحرا میں
اِک گمشدہ کارواں کے
نقوشِ قدم ہیں

مِرا جسم سایہ ہے
وہ لوگ بھی
خیالی صنم ہیں
جنھیں چھُو کے دیکھا ہے میں نے
مِرے ہم نفس بھی
جن کی چاہت کی مِٹّی کا
ماتھے پہ قشقہ لگائے
میں ہر صبح گھر سے نکلتا ہوں
ایک نانِ جویں کے لیے۔۔۔

خدایا۔۔۔
تِری اس کتابِ معانی کا میں
بس اِک حرفِ نا معتبر ہی سہی
مگر اپنے ہاتھوں سے تُو نے لکھا ہے مجھے
مِری خاک میں۔۔۔
تمنّا کا اِک عالمِ رنگ و بو بھی تو ہے
تمنّا کے اس رنگ میں مَیں ہوں ، تُو بھی تو ہے
***