غزل

کبھی ذرّہ ، کبھی صحرا ہوں مَیں
اپنی ہی آنکھ کا دھوکا ہوں مَیں
حیرتی ہوں ترے آئینے کا
لوگ کہتے ہیں کہ تجھ سا ہوں مَیں
میرے اندر مِرے باہر بھی تُو
کیا ترا آئینہ خانہ ہوں مَیں
دیکھ کیا حال ہوا ہے میرا
کھیل تیرا ہے ، تماشا ہوں مَیں
اپنی آنکھوں میں چھپا لے مجھ کو
شب کا ٹوٹا ہوا تارا ہوں مَیں
***