دُکھ کے رِشتے

پہلے بڑے
پھر چھوٹے
سب نے ہم پر دھونس جمائی
سب نے ہمارے سینوں کی چھت
سا نسوں کے فرش پہ رمبا ناچا
بے ہنگم فلمی گیتوں کی
کھیلی اَنتاکشری
ہم نے کتنی راتیں
آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹیں
میں نے نظمیں لکھ کر
کچھ تو بوجھ اُتارا
اُس نے...

...

صبح کی کرنوں کی پہلی دستک پر
گھر کا دروازہ کھولا
تھکے ہوئے بیمار بدن کی
باسی پھولوں جیسی خوشبو سے
سارا کچن مہکایا
کھانے کی میز پہ
دونوں بچّوں
میری ماں کو بلایا !!

***