غزل

رخصت اِک عہدِ جوانی ہی نہیں
کیا کہیں ۔ کوئی کہانی ہی نہیں

اُس نے اِک تصویر بھی مجھ کو دِکھائی
میں نے اپنی شکل پہچانی نہیں

آپ ہم کو لاکھ اُکسائیں جناب
آپ بیتی تو سنانی ہی نہیں

جیسے شبنم ہو رگِ گُل میں رواں
میں ترا آ نسو ہوں ، پانی ہی نہیں

خواب اِک مُٹھّی میں میری رکھ دیا
میں نے روکا بھی ، وہ مانی ہی نہیں

سن رہا ہوں ہاتھ میں ٹھوڑی لیے
جیسے یہ میری کہانی ہی نہیں

ہم بھی اپنے دشمنوں کی صف میں تھے
دوستوں کی مہربانی ہی نہیں

مصحفؔ اپنے فن میں کچھ اپنا لہو
خاکِ کوئے میرؔ و فانیؔ ہی نہیں


***