تھرڈ امپائر



شاہراہوں ، بس اسٹینڈ، گھر کی چھتوں
پیڑ کی
پھُننگوں سے لٹکے ہوئے لوگ سب
منتظر ہیں کہ میں اپنے بستر پہ کب لیٹتا۔
رات کو خواب کیا دیکھتا۔
دِن میں کیا سوچتا ہوں


ہزاروں تماشائیوں کی اُدھر بھیڑ ہے
اِدھر میں یونہی۔
دوڑتا ہوں
ازل سے یونہی۔
بے تکاں دوڑتا ہوں
اُسی پِچ
اُکھڑتی ہوئی چند سانسوں کی وِکٹوں کے بیچ
اُسی گھر کے ، دفتر کے بیچ


زمیں پر ہوں میں اور وہ آسماں پر
مگر میرے دفتر میں آتا ہے وہ
سڑک پر مرے دوستوں سے مری بات کرتا ہے سرگوشیوں میں
کبھی فون پر
مرے گھر کا نمبر گھُماتا ہے وہ

مری نبض پر اپنی اُنگلی رکھے
کبھی سبز بتیّ
کبھی سرخ بتیّ جلاتا ہے وہ!!
***