اِک چراغ کی لَو میں



کاش تم نہیں لکھتے
اتنی ڈھیر سی غزلیں۔
یہ فضول سی نظمیں...
کاش تم سمجھ سکتے
تلخیِ حوادث کا
زہر سب ہی پیتے ہیں
کوئی غم نہیں ہم کو؟
دیکھو ہم بھی جیتے ہیں
دیکھو، وہ مکانوں کی
اِک قطار ہے جن میں
مرد، عورتیں، بچےّ
سر جھُکائے بیٹھے ہیں
اِک چراغ کی لَو میں
اپنے زخم سیتے ہیں

عشق اور ایسا عشق...؟
حُسن۔کون؟ کیسا حُسن؟
تم کو اُس سے کیا لینا
ساتھ جو نہیں بیٹھے
پاس جو نہیں آئے
دوستی ، وفا۔ چھوڑو
لفظ ہیں کتابوں کے
راس جو نہیں آئے

شام کو پرندے جب
لوٹتے ہیں شاخوں پر
تم بھی صبح کے بھُولے
اپنی راہ ہولیتے
پاس بہتی ندّی میں
ہاتھ، منہ ذرا دھوتے
منتظر تھی برسوں سے
وہ جو گھر کی چوکھٹ تھی
وہ جو ایک آنگن تھا
ایک ہی تو دامن تھا
پھر اسے بھگو لیتے
ماں کی گود میں اپنا
سر چھُپا کے رو لیتے!!


***Align Right