درد کا نام پتہ مت پوچھو

درد کا نام پتہ مت پوچھو
درد اِک خیمۂ افلاک
اس اقلیم پہ ہے سایہ کناں
(تم اسے قطبِ شمالی کہہ لو)
تم جدھر آنکھ اُٹھا کر دیکھو
برف ہی برف ہے
اور رات ہی رات
ہم وہ ’موجود‘ کہ جن میں شاید
زندگی بننے کے آثار ابھی باقی تھے
حشرات ۔ ایسے کہ جن کو شاید
روشنی اور حرارت کی ضرورت تھی ابھی
اس اندھیرے میں کہو برف پہ رینگیں کیسے
کوئی بتلاؤ کہ اِس رات کے آزار سے نکلیں کیسے
رات ایسی کہ جو ڈھلتی ہی نہیں
برف ایسی کہ پگھلتی ہی نہیں!!

***