غزل

بس اِک رُوح کیا ہے ، بدن بھی تو ہے
لہو رنگ یہ پیرہن بھی تو ہے
نظر میں رہے خوش لباس اور بھی
مگر ایک رنگِ بدن بھی تو ہے
ابھی عشق سے دُور رکھّو مجھے
ابھی قیس ہے ، کوہکن بھی تو ہے
خزاں میں ابھی تک ہے رنگِ بہار
یہ صحرائے جاں اِک چمن بھی تو ہے
مرے ساتھ اس ساعتِ وصل میں
شبِ ہجر ! تیری تھکن بھی تو ہے
اب آ اور لگ جا گلے سےمِرے
کہ یہ ایک رسمِ کُہن بھی تو ہے

***