زندگی اس طرح گزری
جیسے ریل میں سفر کرتے ہوئے
کچھ بجلی کے کھمبے
ایک...دو...تین...چار...
کچھ ٹوٹے پھوٹے مکان گزر جائیں
اور اُن کے ساتھ
ننھے بچوں کی ہنسی کی آوازیں
کِلکاریاں
جوان عورتوں اور مَردوں کے قہقہے
خواہشوں کی کچّی لکڑیاں
اور اُن کا دھُواں
آنکھ کے آ نسو
پیڑوں کے جھُنڈ
ایک...دو...تین...چار...
نہ جانے کب سگنل کی ہلکی سی جنبش پٹری کی لکیروں کو
تنہا چھوڑ دے
نہ جانے کب کوئی سِلو باؤلر
بہت جلد اپنا اووَر ختم کر دے
(نوبال یا وائڈ کا اشارہ ضروری تو نہیں)
اور سارا کھیل ختم ہو جائے
چند تصویریں
ایک...دو...تین...چار...
کوئی میرے قدموں میںسُرعت سے پھینک دے
کوئی انجانا ہاتھ
اور کوئی غیبی آواز
ان تصویروں کو جوڑتی ہوئی کوئی کہانی گھَڑ دے
اور مجھ سے کہے ’’یہ کہانی تمھاری ہے‘‘
یہ چاند، سورج، ستارے
بازار، گلی،نُکڑ
تم ہی ان کا محور ہو
اتنے بڑے الزام کا بوجھ
میری مِٹی پر رکھ دے
اور اس سے پہلے کہ میں ریل کی پٹریاں
باؤلر کا گھومتا ہوا ہاتھ دیکھ سکوں
اپنے قدموں میں پڑی ہوئی تصویروں کو اُٹھا سکوں
اتنا بڑا الزام
ایسا اِتہام...
میں سوچنے کی کوشش کرتا ہوں
کوئی اپنی سرد اُنگلیاں میری آنکھوں پر رکھ دیتا ہے
تاریکی، گہری اور گہری ہوتی جا رہی ہے
ایک نشتر کی ٹھنڈک
میرے لہو میں گھُل رہی ہے
مجھے نیند آ رہی ہے
’’اتنا بڑا الزام...‘‘
میں سوچ رہا ہوں
میں سو رہا ہوں
میں نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں اقبالِ جرم کرتا ہوں!!
***
جیسے ریل میں سفر کرتے ہوئے
کچھ بجلی کے کھمبے
ایک...دو...تین...چار...
کچھ ٹوٹے پھوٹے مکان گزر جائیں
اور اُن کے ساتھ
ننھے بچوں کی ہنسی کی آوازیں
کِلکاریاں
جوان عورتوں اور مَردوں کے قہقہے
خواہشوں کی کچّی لکڑیاں
اور اُن کا دھُواں
آنکھ کے آ نسو
پیڑوں کے جھُنڈ
ایک...دو...تین...چار...
نہ جانے کب سگنل کی ہلکی سی جنبش پٹری کی لکیروں کو
تنہا چھوڑ دے
نہ جانے کب کوئی سِلو باؤلر
بہت جلد اپنا اووَر ختم کر دے
(نوبال یا وائڈ کا اشارہ ضروری تو نہیں)
اور سارا کھیل ختم ہو جائے
چند تصویریں
ایک...دو...تین...چار...
کوئی میرے قدموں میںسُرعت سے پھینک دے
کوئی انجانا ہاتھ
اور کوئی غیبی آواز
ان تصویروں کو جوڑتی ہوئی کوئی کہانی گھَڑ دے
اور مجھ سے کہے ’’یہ کہانی تمھاری ہے‘‘
یہ چاند، سورج، ستارے
بازار، گلی،نُکڑ
تم ہی ان کا محور ہو
اتنے بڑے الزام کا بوجھ
میری مِٹی پر رکھ دے
اور اس سے پہلے کہ میں ریل کی پٹریاں
باؤلر کا گھومتا ہوا ہاتھ دیکھ سکوں
اپنے قدموں میں پڑی ہوئی تصویروں کو اُٹھا سکوں
اتنا بڑا الزام
ایسا اِتہام...
میں سوچنے کی کوشش کرتا ہوں
کوئی اپنی سرد اُنگلیاں میری آنکھوں پر رکھ دیتا ہے
تاریکی، گہری اور گہری ہوتی جا رہی ہے
ایک نشتر کی ٹھنڈک
میرے لہو میں گھُل رہی ہے
مجھے نیند آ رہی ہے
’’اتنا بڑا الزام...‘‘
میں سوچ رہا ہوں
میں سو رہا ہوں
میں نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں اقبالِ جرم کرتا ہوں!!
***