غزل

کیسی کالی کتنی لمبی رات ہے
سو رہا ہوں ، سر پہ ماں کا ہاتھ ہے

خواب کہتا ہے مری راتوں میں آ
اور جو بستر پہ میرے ساتھ ہے؟

سب یہی کہتے تھے.. اب تم بھی وہی..
تم بھی کہتے ہو ، تو اچھّی بات ہے

میں نے جو تدبیر کی ، اُلٹی ہوئی
لیکن اس میں آسماں کا ہاتھ ہے

بات پھر پہنچے گی ترک الترک تک
یہ جو ترکِ آرزو کی بات ہے

تجھ کو کھو کر ہی تو پایا ہے تجھے
یہ بھی میری جیت ، تیری مات ہے
٭٭٭