غزل

اُس نے سنایا ہم کو اپنے دِل کا قصّہ آج عجیب
ہم جس کو پتّھر کہتے تھے ، کیسا دھڑکا آج عجیب

دن میں جانے کب گھُس آیا ، صحرا میرے کمرے میں
دفتر سے لوٹے تو دیکھا گھر کا نقشہ آج عجیب

ضبط نے شاید پہلو بدلا ، درد نے پھر سے کروٹ لی
رات ابھی باقی تھی آدھی ، سورج چمکا آج عجیب

برسوں بعد اُسے دیکھا تو حیرانی میں ڈوب گیا
آئینہ دیکھوں تو لگتا ہے اپنا چہرہ آج عجیب

وہ کہتی ہے آج ہمارے بچّوں کے فون آئیں گے
اپنے گھر میں لگتے ہیں نا تنہا تنہا آج عجیب

***