غزل


ہم ترا سایہ تھے ، سایہ ہو کے
پھر چلے آئے ہیں تجھ کو کھو کے

درد کی فصل ہمیں یاد رہی
بیج ہم بھول گئے تھے بو کے

آنکھ نے دیکھا مگر کیا دیکھا
عقل نے اور بھی کھائے دھوکے

ایک طوفان کی آمد آمد
ایک آ نسو کوئی روکے ... روکے

سب کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں تو، ہم
کوئی اتنا نہیں اُس کو ٹوکے

تیرا عاشق تھا تو لے یہ تابوت
آخری کیل بھی تُو ہی ٹھوکے

دیکھو مصحفؔ کو جگاؤ نہ اگر...
ابھی سوئے ہیں بہت رو رو کے


***