غزل

چاہیے عرشِ بریں بھی اس کو
یاد آتی ہے زمیں بھی اس کو
لے گئے میرا نشانِ کفِ پا
کر دیا صرفِ جبیں بھی اس کو
ایک اِک اینٹ شناسا نکلی
یاد تھے سارے مکیں بھی اس کو
دیکھنا آنکھ کی دیوار کے پاس
ڈھونڈنا دِل کے قریں بھی اس کو
چھَٹ گئی تیرگیِ وہم و قیاس
ہو عطا نورِ یقیں بھی اس کو
چھیڑنا بات سنبھل کر مصحفؔ
کہنا آتا ہے ’نہیں‘ بھی اُس کو
***