غزل

ہم نے کہا ’’چلو تمھیں دُور یہاں سے لے چلیں‘‘
کہتی ہے ’’ٹھیک ہے ، مگر...‘‘ اب اس ’’مگر‘‘ کا کیا کریں

اپنا تو اِک چراغ تھا جس کو ہَوا بُجھا گئی
ہم نہیں جانتے اِنھیں ، شمس و قمر کا کیا کریں

قیس کی بات اور تھی اُس کا نہ کوئی گھر نہ ٹھور
یہ جو ہمارے ساتھ اِک گھر بھی ہے ، گھر کا کیا کریں

اوروں کے سامنے رہے ہم بڑی آن بان سے
اپنی نظر سے گر گئے ، اپنی نظر کا کیا کریں

***