غزل

چشم و گوش پہ پہرے ہیں
اندھے ہیں سب ، بہرے ہیں

دُکھ کی آنکھیں نیلی ہیں
دُکھ کے بال سنہرے ہیں

نقش ابھی ہے خام ترا
رنگ بھی تیرے گہرے ہیں

اُس کا کوئی نام نہیں
بس چہرے ہی چہرے ہیں

معنی پر تو قید نہیں
لفظوں پر کیوں پہرے ہیں

اشکوں کی بارش ہو گی
دُکھ کے بادل گہرے ہیں

گھر ۔ کس کا گھر ؟ کیسا گھر؟
ہم ہوٹل میں ٹھہرے ہیں


***