غزل

(مغنی تبسّمؔ کے نام)


لبِ ساحل ، تہہِ دریا دیکھا
ایک ہی نقشِ کفِ پا دیکھا

میری آنکھوں کے شجر سوکھ گئے
رات کیا خواب میں صحرا دیکھا

آنکھ حیران ۔ یہ رقصِ مہہ و مہر
گھر سے نکلے تو تماشا دیکھا

گردِ آئینہ خد و خالِ خیال
تو کہاں تھا کوئی تجھ سا دیکھا،

پھر تری یاد نہ آئی مجھ کو
میں تجھے بھول گیا تھا ... دیکھا

میں نے ہر حرف کو ٹھوکا پیٹا
میں نے ہر لفظ کو کھولا ، دیکھا

ایک ہاتھ آنکھ کی دیوار کے پاس
دِل کی زنجیر سےِلپٹا دیکھا

کس سے ملنے کے لیے آیا تھا
در و دیوار کا چہرہ دیکھا

ایک تاریک کنواں تھا دِل کا
مصحفؔ اُس میں کبھی جھانکا ۔ دیکھا ؟


***