رات کی بات



رات نے کہا مجھ سے
آؤ خواب اِک دیکھیں
زمہریر کا موسم
برف شاہراہوں پر
برف ہے چناروں پر
ریزہ ریزہ گِرتے ہیں
برف کی طرح لمحے
تمکنت سے بیٹھی ہے
گلیشیر کی چادر
زیب تن کیے دھرتی
آسماں کے سر پر ہے
اِک سمور کی ٹوپی

گلیشیر بہتا ہے
جیسے سُست رَو دریا
بہتے بہتے سو جائے
وہ سمور کی ٹوپی

آسمان سے اُتری
دائیں گال پر میرے
جیسے گھاؤ ہو کوئی
ڈولتی ہے پانی میں
جیسے ناؤ ہو کوئی
آؤ ناؤ میں بیٹھیں
رات نے کہا مجھ سے
آؤ خواب اِک دیکھیں

کچھ تو برف پگھلی ہے
آسماں کے روزن سے
اِک ستارہ چمکا ہے
میری بند پلکوں پر
اپنی اِک کرن لے کر
رات لوٹ آئی ہے،
میں نے اس کے بالوں میں
اُنگلیوں کو پھیرا ہے
میرے زرد گالوں پر
اُس کا سرد بوسہ ہے
***