غزل

سر پر کلاہ ، تن پر خلعت کہاں ملے گی
وہ مل گیا تو غم کی دولت کہاں ملے گی

یہ آبدار موتی ہم پر تو مت لُٹاؤ
ہم سے اِن آ نسوؤں کی قیمت کہاں ملے گی

وہ خال و خد بتاؤ پانی پہ کیوں لکھے تھے
اب ڈھونڈھتے ہو اس کی صورت کہاں ملے گی

میری اگر سنو تو اِک بار خود سے مل لو
وہ آگیا تو تم کو فرصت کہاں ملے گی

دفتر سے تھک کے ماں کے قدموں میں لیٹتے تھے
وہ دِن کہاں گئے وہ جنّت کہاں ملے گی

اُس دیر آشنا سے پوچھے تو کوئی مصحفؔ
آئینہ مل بھی جائے ، حیرت کہاں ملے گی

***