غزل

یہ کیسا کھیل ہے اب اُس سے بات بھی کر لوں
کہے تو جیت کو اپنی میں مات بھی کر لوں


یہ اختیار مرا تجھ کو جس طرح سوچوں
سحر کو شام کہوں ، دِن کو رات بھی کر لوں


بُلاؤں ۔(اشکوں سے روشن کروں یہ آنکھ کا گھر)
کسی کی یاد کو اور دِل سے گھات بھی کر لوں


یہ دُکھ بھی ساتھ چلے گا کہ اب بچھڑنا ہے
اگر سفر میں اُسے اپنے ساتھ بھی کر لوں


کسی کا نام نہ لوں اور غزل کے پردے میں
بیان اُس کی میں ساری صفات بھی کر لوں


تُو میری ذات کا محور ، مرا مدار بھی تُو
یہ مشتِ خاک اسے کائنات بھی کر لوں

***