غزل



سایہ آسماں کا ہے
اِک یقیں گماں کا ہے

بے سبب ستاتے ہو
عُذر امتحاں کا ہے

بیتی رُت ، گئے لمحے
رنج رفتگاں کا ہے

ہر نشان منزل کا
عشقِ بے نشاں کا ہے

اُس کے دَر سے اُٹھتے ہو
اب سفر کہاں کا ہے

دِل کا کچھ نہ بگڑے گا
جو زیاں ہے، جاں کا ہے

دِل اُسی گلی میں ہے
رُخ اُسی مکاں کا ہے

اُس سے کچھ نہیں کہتے
شکوہ آسماں کا ہے

موج سی لہو کی ہے
یا سراب جاں کا ہے

باپ کی دُعائیں ہیں
سر پہ ہاتھ ماں کا ہے

***