غزل

میرے خون کے پیاسے ہوں گے لیکن لوگ جیالے تھے
اُن کے سر پر دھوپ کی چادر ، اُن کے پاؤں میں چھالے تھے

اُس گھر کے دیوار و دَر سے جانے کیسا رِشتہ تھا
گھوم گھوم کر ہم نے دیکھا دروازوں پر تالے تھے


کچھ نے ہاتھ پکڑ کر روکا ، کچھ نے رستہ روک لیا
ورنہ ہم نے سوچ لیا تھا ، اس سے ملنے والے تھے


تم بچھڑے تو ہم سے ملنے کتنی خوشیاں غم آئے
ہم نے اُن کی شکل نہ دیکھی ، گورے تھے یا کالے تھے


’’ممّی ! ممّی ! بولو یہ انکل اچھٓے ہیں یا پاپا‘‘
اُس کے بچےّ توبہ توبہ آفت کے پرکالے تھے


اُس کو دیکھا تو آنکھوں میں لفظ اشکوں سے بھیگ گئے
مصحفؔ ہم سے جھوٹ نہ بولو تم کچھ کہنے والے تھے

***