ایک نظم ۔۔ اپنی پوتی کے لیے



میری ننّھی جوہیؔ کو
پہلے پہل جب
پاؤں پاؤں چلنا آیا
ایسے اِترا اِترا کے پاؤں بڑھاتی
مُڑ مُڑ کر کہتی ’’ددّا ... دا...دا...‘‘
ایسے خوش ہوتی
جیسے جہاں اُس کے قدموں کے نشاں پڑ جائیں گے
وہ دھرتی کا ٹکڑا اس کی اقلیم ہے
(اور جو دھرتی بچ جائے گی
سب اُس کے ممّی ،پاپا کی...)

رات آئی تو میری گڑیا ہاتھ ہلاتی
چھم ... چھم... اِک پاؤں میں پایل چھنکاتی
گرتی، اُٹھتی، ڈگمگ چلتی
اپنے کمرے سے

میرے بستر تک آئی
میرے خمِ بازُو میں سوئی
میری آنکھوں پر ننھّے ننھّے ہاتھوں کو رکھ کر
اُس نے جو بھی خواب دِکھائے
میں نے اُن ہی خوابوں کو دیکھا
(صدیاں گزریں۔
بھول گیا تھا...)
اُس کی انگلی تھام کے
میں نے پھر سے چلنا سیکھا!!

***