غزل

بدن کی اندھیری گُپھا میں نہیں
زمیں پر نہیں ، میں خلا میں نہیں

وہ مُٹھی نہ کھولے تو میں کیا کروں
ابھی میری خوشبُو ہَوا میں نہیں

اُسی رنگ کا پھول اس نے چُنا
جو اِک رنگ میری وفا میں نہیں

شکستہ پَروں کو سمیٹو ذرا
زمیں پر رہو بس خلا میں نہیں

یہ اطلس یہ کمخواب رہنے بھی دو
یہ پیوند میری قبا میں نہیں

مِرا کھیل ہی سارا اُلٹا ہوا
اثر شعر میں ہے دُعا میں نہیں

سُنیں شعر کس سے ، سُنائیں کسے
وہ کیفے نہیں اب وہ شامیں نہیں

***