یہ دِل مِرا

قدم قدم پہ آزمائشیں
نفس نفس یہ امتحاں
اِسی کا نام زندگی ہے۔ جانتا ہوں میں
مگر یہ دِل مٕرا
نہ جانے کس جہانِ آب و گِل کا یہ خمیر ہے
یہ چاہتا ہے، ڈھونڈ لے
جو نقش میں نے بھیگی ریت پر کبھی بنائے تھے
اُمید کے چراغ، شام ہی سے میں نے جو جلائے تھے
وہ خواب رات کی مُنڈیر تک جو آئے تھے
وہ نقش۔۔ وہ اُمید، خواب سب فسوں

(فسوں ہے۔۔ اور کچھ نہیں)

وہ نقش، وہ اُمید، خواب سائے ہیں
میں اُن کو جسم کیسے دُوں
میں اپنے دِل سے بارہا یہ کہہ چکا
اب اور کس طرح کہوں

سنیما، تھیٹروں، کلب
میں اس کو اپنے دوستوں کے پاس لے گیا
مگر یہ دِل مِرا۔
کسی کو دیکھتا نہیں
کسی کو مانتا نہیں

عجیب رات آئی پھر
میں اپنے دِل سے۔
اپنی زندگی سے
دوستوں سے دُور ہو گیا
پلنگ پر پڑی تھی اِک رِدائے بے حسی
اُسی کو اوڑھ کر
میں سوگیا!!

***