غزل

اس تیری زمیں سے آسماں سے
جی اُوب گیا ۔ چلیں یہاں سے

بازار گئے تھے ... کس دُکاں سے؟
یہ جنسِ وفا ملی کہاں سے

بیٹھے ہیں ہم ، اور اُٹھ گئے ہیں
کچھ لوگ ہمارے درمیاں سے

اِن پر ہیں نشان اُنگلیوں کے
یہ پھول تمھیں ملے کہاں سے

اے دِل ! ذرا ہوشیار رہنا
اس طرزِ تپاکِ دوستاں سے

دُنیا سے کوئی غرض نہ دیں سے
یہ آرزو لائے ہو کہاں سے

یہ دھُوپ یہ چھاؤں سب تمھاری؟
کہتا ہے چلو ، اُٹھو یہاں سے
***