غزل



ہمیں دُنیا سے کچھ لینا نہیں تھا
ہمارے ہاتھ میں کاسہ نہیں تھا

سنا تھا تُو حسیں ہے ، بے وفا بھی
تجھے اے زندگی دیکھا نہیں تھا

یہی انعام ۔ اُس کے کام آئیں
نہ لے احساں اگر لیتا نہیں تھا

نئے کچھ خواب لے کر رات آئی
ابھی بستر پہ میں لیٹا نہیں تھا

مِرے بچّوں کے اپنے اپنے آنگن
مِرے گھر میں کوئی رہتا نہیں تھا
***