لفظوں کی بارش !!


عجب زندگی ہے
مِرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں
میرے بالوں میں بس۔۔۔
کاغذی ریت ہے
مجھے تو ہنسی آ رہی ہے۔تمھیں بھی
وہ دِن یاد ہیں نا؟
ہم ذرا آنکھ اُٹھاتے تو پلکوں کوَمس کرتیں مہتاب کی نرم کرنیں
شفق ، سبز پتےّ،کئی رنگ کی تتلیاں
کبھی اپنے ہاتھوں سے ہم
سر کو چھُوتے۔سیہ، سُرمئی ، بھُورے بادل ہٹاتے
کوئلیں کوکتیں
اور لفظوں کی بارش میں ہم
نہا جاتے تھے
تو کیا وقت کے ساتھ
لفظ بھی رُوٹھ جاتے ہیں
زرد پتّوں میں ڈھلتے ہیں
معنی کے موسم بدل جاتے ہیں
یہ سچ ہے تو پھر
یہ موسم بھی بدلے گا اِک دِن
ہم تم
اور وہ لوگ۔ جو ہم سے پہلے بہت پہلے بوڑھے ہوئے
وہ بچےّ بھی
جو پالنے میں ابھی آنکھ پر ہاتھ رکھّے ہوئے سو رہے ہیں
(خزاں کا کوئی رنگ ابھی جن کی حیراں نگاہوں نے دیکھا نہیں ہے)
خداوند کی رحمتوں کے قلم سے
آسمانوں پہ لکھّا ہوا ابر برسے گا جب
تو لفظوں کی بارش میں
ہم سب نہا جائیں گے
٭٭٭