غزل

کھویا ہے تو کیا کھویا ، پایا ہے تو کیا ہم نے
سب کھیل تماشا ہے ، سب دیکھ لیا ہم نے
کہتا تھا فرشتہ ہو ، انسان نہیں ہو تم
افسانہ سناتا تھا ، افسانہ سُنا ہم نے
اِک خواب ۔ لہو دے کر آنکھوں میں اُسے روکا
اِک رات کو پلکوں سے زنجیر کیا ہم نے
دیکھیں تو سہی ہم بھی ، اے دِل ابھی چلتے ہیں
انجام جو ہو سو ہو ، اب سوچ لیا ہم نے
بُجھتی ہوئی آنکھوں میں لفظوں کا دھُواں کیا تھا
کچھ تم کو نظر آیا ؟ کچھ تم سے کہا ہم نے؟
ماں کی طرح پھر اُس نے چومی مِری پیشانی
جب رات کے سینے پر سر اپنا رکھا ہم نے

***