غزل

نقشِ قدم تھا وہمِ سفر تک
کوئی نہیں تھا حدِّ نظر تک

کالے جنگل ، تھاہ سمندر
تیرے گھر سے میرے گھر تک

بھیڑ تھی کیسی دوکانوں پر
کوئی نہ پہنچا اپنے گھر تک

میں ہی کسی کو یاد نہ آیا
میں نے نہیں لی اپنی خبر تک

اِک بھاری زنجیر تھی دُنیا
دفتر سے ... بازار سے ... گھر تک
***