رُوح میں طوفان سا ، جاں میں بھنور ہے الگ
دشتِ صدا میں گھِرا آنکھ کا گھر ہے الگ

سر کو چھُپائیں کہاں ،بارشِ سنگ اِک طرف
دِل کو سنبھالیں کہ یہ کانچ کا گھر ہے الگ

تُو جو بہت پاس ہے ، دُور سے دیکھوں تجھے
پاس بلاؤں اُسے ، تجھ سے اگر ہے الگ

چشمِ معانی میں ہے اور ہی منظر کوئی
لفظ وہی ، لب وہی ، دِل پہ اثر ہے الگ

وہ نہ بُرا مان جائے ، میں کہیں کچھ کہہ نہ دوں
بھائی کا اپنے خیال ، مجھ پہ نظر ہے الگ

وقت کی اس ریت میں بیج جو ہم بوگئے
اُس کا ثمر ہے الگ ، اُس کا شجر ہے الگ


***