غزل

ایک ہوتی تو دُکاں لے جاتا
دِل سا بازار کہاں لے جاتا

اپنی پلکوں پہ اُٹھائے پھرتا
تیرے قدموں کے نشاں لے جاتا

خواب لے جاتا ، کبھی حسرتِ خواب
شمع بجھتی تو دھُواں لے جاتا

میں کبھی ہاتھ پکڑ کر تیرا
جانبِ وادیِ جاں لے جاتا

کھول دیتا مری زنجیریں سب
اپنی چشمِ نگراں لے جاتا

عکس پتھّر پہ ہی رہنے دیتا
ہُنرِ شیشہ گراں لے جاتا

کیا مِرا ہونا نہ ہونا میرا
میرے سب نام و نشاں لے جاتا

وسعتِ گوشۂ خلوت سے ہوں تنگ
میں کہاں کون و مکاں لے جاتا

قفل ہونٹوں پہ ، بغل میں دابے
اِک کتابوں کی دُکاں لے جاتا

اُٹھ کے راتوں کو کیے ہیں سجدے
اپنے ماتھے کا نشاں لے جاتا

ایک آ نسو نے ڈبویا مصحفؔ
اِس سمندر کو کہاں لے جاتا
****