ہمیں اتنا نہ آیا...


ہمیں اتنا نہ آیا اپنے دِل کی بات ہی کہہ لیں
کوئی پیرایۂ اظہار مِل جاتا
اگر تجھ سے محبّت ہی نہ ہوتی تب بھی کیا ہوتا
ہمارے روز و شب کو
اگر تیری ضرورت ہی نہ ہوتی تب بھی کیا ہوتا
کسے فرصت کہ ان اندھے کنوؤں میں جھانک کر دیکھے
اَوروں کے دِل کے بھید ڈھونڈھے
مگر اِک پھول پر رُک کر کوئی اُڑتی ہوئی تتلی
نہ جانے جھُک کے کیا کہتی ہے ، ۔۔۔کلیاں
کھلکھلا کر زور سےہنستی ہیں ،۔۔۔ شاخیں
جھوم جاتی ہیں

تمنّا کیا اگر آسائشِ عرضِ تمنّا ہی نہ ہو حاصل
ہماری آنکھ میں آ نسو ہے ۔ دِل میں اِک سمندر سا
اب اُن لہروں پہ بہتے ہیں، نہیں جن کا کوئی ساحل

ہمیں اتنا نہ آیا اپنے دِل کی بات ہی کہہ لیں
ہمیں اتنا نہ آیا اپنے دِل کی بات ہی کہہ لیں!!

***