غزل

نشتروں پر جسم سارا رکھ دیا
زخم پر لفظوں کا پھاہا رکھ دیا
رات کی بھیگی ہوئی دیوار پر
میں نے اِک روشن ستارہ رکھ دیا
رات تم نے روشنی کے کھیل میں
کیوں مرے سائے پہ سایہ رکھ دیا
میں نے وہ پتوار بھی لوٹا دیے
بیچ دریا کے کنارا رکھ دیا
پھول تھے اُن میں مگر خوشبو نہ تھی
لفظ کو سونگھا ، اُٹھایا ، رکھ دیا
دُشمنی اچھّی نکالی وقت نے
بوجھ اِن کاندھوں پہ کیسا رکھ دیا
سب تماشا ، کھیل سارا اُس کا تھا
نام ناحق ہی ہمارا رکھ دیا

***