غزل

بازوئے شب میں سمٹنا میرا
چاند کی طرح سےگھَٹنا میرا
پاشنہ کوب بگولے کی طرح
اپنی ہی سمت پلٹنا میرا
کھیلنا دھیان سے اُس کے پہروں
پھر نقاب اُس کی اُلٹنا میرا
ایک ہی لفظ کو اوڑھے رہنا
ایک ہی نام کو رَٹنا میرا
ایک ہی شاخ کی رِت میں رہنا
ایک ہی وار میں کٹنا میرا
کتنے دیپوں کا سفر تھا مصحفؔ
بہتے آ نسو میں سمٹنا میرا

***