غزل

کھڑی ہوئی ہے تیرے سروپ
چائے کی پیالی تھامے دھُوپ

ساگر ، موتی ، بادل ، اوس
اِک آ نسو اتنے بہروپ

میرے اندر تیری چھاؤں
میرے مُکھ پر تیری دھُوپ

میرے شعر الگ سب سے
جیسے تیرا رُوپ انوپ

مصحفؔ بدلے بھیس نئے
روز نیا ساجے بہروپ

***