غزل

دھُوپ سر پر ہے ، اُٹھو ، ضد مت کرو
چائے کی پیالی ؟ یہ لو ، ضد مت کرو
اپنی زُلفوں سے مجھے باندھا ہے کیوں
ہاتھ میرے کھول دو ، ضد مت کرو
ٹھیک سے چلنا تو پہلے سیکھ لو
اتنے اُونچے مت اُڑو ، ضد مت کرو
پاس بیٹھو گے ، تو پھر کھو جائے گی
دُور ہی سے دیکھ لو ، ضد مت کرو
زخم جاگ اُ ٹھ)یں گے پھر، کروٹ نہ لو
رات ہے ، لیٹے رہو ، ضد مت کرو
آستیں سے اپنی آنکھیں پونچھ لو
جاؤ اُس سے بھی مِلو ، ضد مت کرو
شہر کے بازار ، سڑکیں سو گئیں
اب اُٹھو ، اب گھر چلو ، ضد مت کرو
مصحفؔ اُس کا دِل دُکھانا ہے ضرور؟
ایسے پتھّر مت بنو ، ضد مت کرو
***