غزل

سرسبز چمن میرا ، اے بادِ صبا رکھنا
ہر پھول کھِلا رکھنا ، ہر پات ہَرا رکھنا

اِس نیند کی وادی سے میں تو نہ کبھی لوٹوں
شانے پہ مِرے بکھری یہ زلفِ دوتا رکھنا

یہ کب سے نہیں روئیں ، یہ کب سے نہیں سوئیں
ان جاگتی آنکھوں پر تم ہاتھ ذرا رکھنا

یہ نقدِ دِل و جاں ہی بس اپنا اثاثہ ہے
میں دِل کی خبر رکھّوں ، تم جاں کا پتہ رکھنا

وہ چاند جو تکتا ہے کھڑکی کی سلاخوں سے
دروازے سے آئے گا ، دروازہ کھلا رکھنا


اشعار ہیں مصحفؔ کے اوروں سے الگ جیسے
انداز لگاوٹ کے تم سب سے جدا رکھنا

****