مجھے دُکھ ہوتا ہے

لفظ کی تذلیل پر
مجھے دُکھ ہوتا ہے
جب کوئی ایسی بات کہی جائے
جو اس قدر پوچ اور واہیات ہو
کہ سمجھ میں نہ آتے ہوئے بھی فوراً سمجھ میں آجائے
سچ یا جھُوٹ کی طرح
کسی برساتی نالے میں بہنے لگے
بہت سی مثالیں ہیں۔۔۔
(مُووی مثالیں)
جیسے کوئی مرد کسی عورت سے تسکین حاصل کر کے
اُسے دھکیل دے۔اور تکیے کے سہارے
نیم دراز ہو کر سگریٹ جلانے لگے
یا کوئی عورت کسی مرد کو...

اور کچن میں جا کر
آٹا گوندھنے لگے

میں چاہتا ہوں
ہم لفظ کو خوشبو کی طرح سُونگھیں
جیسے پرانے کپڑوں میں کسی رفیق بدن کی مہک
لفظ کو کھولیں
جیسے نومولود بچّہ آنکھیں کھولتا ہو
لفظ کو چُومیں
جیسے مدر ٹریسا کے ہاتھ

اپنے دونوں کان اور سر کو گھُما کر
لفظ کو دیکھیں
جیسے کوئی شعلہ
زمین، مرّیخ اور زہرہ کے درمیان
چکّر کاٹ رہا ہو
لفظ کو سوچیں
اپنے سر اور پاؤں کی خاک میں
لفظ کوسُنیں
سُرخ آنکھوں سے
خوردبین پر جھُک کر

کانچ کی سلائڈ میں...

میں چاہتا ہوں ہم لفظ کو اُنگلیوں میں تھام کر
(معنی کی نوک پر)
آہستہ سے گھمائیں
اس طرح کہ لفظ
(پہلے سمٹے...)
کائنات کا محور بنے
(پھر اس طرح پھیلے)
مجھے اور تمھیں۔
ہر شے کو ایک ہی دائرے میں محیط کر لے...

لیکن یہ کیسے ممکن ہے
جب فضا اتنی کثیف ہو
تو ایسا کریں
آؤ شہر کی سڑکیں دھوئیں
نئے جنگل اُگائیں
لفظ جس شاخ پر جس رنگ میں بیٹھا ہے
اُسے وہیں بیٹھا رہنے دیں!!

***